سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقررکرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، اور امکان ہے کہ سماعت آئندہ ہفتے مقرر کردی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف مل پائے گا؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے پوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رہنما حامد خان نے کہا کہ یہ ریفرنس اس وقت داخل ہوا تھا جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی، زرداری صاحب صدر تھے اور وزیراعظم (یوسف رضا گیلانی) بھی انہی کے تھے، اس پر سماعتیں بھی ہوئیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ یہ تو سپریم کورٹ کی مرضی ہے کہ وہ کون سا کیس سماعت کیلئے فکس کرتے ہیں، لیکن اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے جو کیسز زیر التوا ہیں دیکھا جائے تو ان پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیس تاریخ کا حصہ ہے، تاریخ کا فیصلہ پہلے ہی آچکا ہے کیس کا فیصلہ درست نہیں ہوا تھا، ’لہذا اس کیس کو پھر سے سننا یا اس پر ورڈکٹ (فیصلہ) دینا میں سمجھتا ہوں کہ آج کے حالات میں اتنا کوئی ضروری نہیں ہے‘۔
حامد خان نے کہا کہ جن حالات میں یہ فیصلہ آیا تھا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کچھ عوامل اس فیصلے کے پیچھے کام کر رہے تھے۔ ’لیکن میں یہ کہوں گا کہ اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے وہ کنٹرورسیز ہیں جو آج کے حالات سے ریلیٹ کرتی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی کیس کی وجہ سے مولوی مشتاق تاریخ میں اچھے الفاظ میں نہیں جانے جاتے، اسی کیس کی وجہ سے انوار الحق جو کہ اچھے جج تھے لیکن تاریخ میں ان کا نام اچھے الفاظ میں نہیں لکھا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں انصاف تو تاریخ کردیتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں جو حکومتیں کام کر رہی ہیں وہ آئین کے مطابق نہیں ہیں، کسی بھی کئیر ٹیکر گورنمنٹ کو 90 دن سے زیادہ آئین میں اجازت نہیں ہے۔ لہذا مرکز اور صوبوں میں یہ حکومتیں غیر آئینی ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ہونے چاہئیں اور فری اینڈ فئیر ہونے چاہئیں، الیکشن مثبت نتائج کیلئے نہیں عوامی نتائج کیلئے ہونے چاہئیں۔
حامد خان نے کہا کہ ’آج بھی جو کچھ ہورہا ہے اس سے یہی نظر آرہا ہے کہ پہلے سے پلان کیا ہوا ہے کہ کس کو کہاں حکومت دینی ہے، کس کو ہم نے آگے اقتدار دینا ہے، کس کو اقتدار نہیں دینا، کس کو اقتدار سے باہر رکھنا ہے، کس پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنا ہے، کس پارٹی کو الیکشن میں فیور کرنا ہے، یہ ساری چیزیں آپ کے سامنے ہیں‘۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات متنازع ضرور تھے، 2013 میں بھی اسی طرح ہوئے ہیں، 2013 میں بھی پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر رکھا گیا تھا۔ 2013 سے 2018 میں گیم ریورسل ہوگئی تھی، ن لیگ فیورٹ نہیں رہی تھی پی ٹی آئی فیورٹ ہوگئی تھی۔ جو کچھ بھی ہوا وہ اچھا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں مریم نواز اور نواز شریف جیل میں تھے، کسی حد تک وہ درست کہتے ہیں کہ لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی، لیول پلئینگ فیلڈ نہ سہی فیلڈ تو تھی۔ اس وقت تو پی ٹی آئی کو پلئینگ فیلڈ ہی نہیں دی جارہی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج تک نو مئی کی جوڈیشل انکوائری نہیں ہوئی، جوڈیشل انکوائری کیلئے 25 مئی سے ہماری پٹیشن دائر ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ جوڈیشل کمیشن سے جوڈیشل انکوائری کرائیں، پھر جس کا جو قصور ہو اس کے مطابق اسے سزا دی جائے۔
حامد خان نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کو ٹریپ کرنے کیلئے سوچا سمجھا پلان تھا تاکہ اشتعال پیدا ہو۔
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت کم از کم لیگل فارمیلیٹیز جو تھیں وہ پوری کی گئی ہیں، میں ان کو آئیڈیل الیکشن تو نہیں سمجھتا جو گراس روٹ سے اوپر تک نہ ہوں، لیکن جس طرح سے دوسری پارٹیز الیکشن کراتی ہیں، اس سے زیادہ بہتر الیکشن ہوئے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کو ’چیلنج کرنے والوں کے پیچھے کوئی اور لوگ ہیں‘، اکبر ایس بابر تو بڑے عرصے سے پارٹی کے خلاف کام کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن تو انتظار کر رہا تھا اس چیلنج کا کہ آتے ہی تاریخ مقرر کردی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی ایک ہوسٹائل (مخالف) الیکشن کمیشن کو فیس (سامنا) کر رہی ہے‘۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں الیکشن کے التوا کے حوالے سے دائر درخواست پر انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کوئی ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی فہرستوں کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر نہیں ہوسکتی، ہاں حلقہ بندیوں کو چیلنج کیاجاسکتا ہے، اس میں الیکشن کمیشن یہ یقینی بنائے کہ حلقہ بندیوں پر جائز اعتراضات جلد سے جلد دور کیے جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں حامد خان نے کہا کہ وکیل سب سےزیادہ عوام سے جڑے ہوتے ہیں، یہ تو 1985 کے بعد ہمارا کلچر بدلہ ہے جب ضیاء الحق نے پارٹی لیس الیکشن کرائے، اس سے یہ پیسے والے لوگ سیاست میں گھس گئے، یہ اس دور کی پیداوار ہیں ، ورنہ اس سے پہلے آپ دیکھیں تو بھٹو صاحب کے دور میں بھی وکلاء سیاست میں بڑی تعداد میں تھے، اس سے بھی پہلے دیکھیں تو جب پاکستان بنا ساری قیادت وکلاء کے پاس تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہر جگہ سے ہر حصے سے امیدوار موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کو ٹکٹیں دیں گے جو عوام کے ساتھ اپنے حلقے میں عوام کے ساتھ کنیکٹڈ ہیں اور ان کے عوام کے ساتھ روابط ہیں۔