پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ انتخابات کیلئے نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں ضروری تھیں، الیکشن کمیشن نے چونکہ حلقہ بندیوں کا اعلان کردیا ہے اس لیے اب انتخابات میں کوئی رکاوٹ نہیں، آئندہ 54 دنوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہوجائے گا، عام انتخابات 8 فروری کو مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔
خرم دستگیر نے ان خیالات کا اظہار آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں کیا۔
پروگرام میں مولانا فضل الرحمان کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے خدشات پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ’وہ صحیح خدشات اٹھا رہے ہیں، پاکستان میں انتخابات کے کوئی حالات نظر نہیں آرہے، آپ پنجاب کی بات کریں، سندھ کی، کے پی کے کی، مجھے کوئی ایک آدمی نہیں ملا جو کہہ رہا ہو الیکشن نظر آرہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں عجیب غیریقینی کی صورتحال ہے، الیکشن کیلئے کسی کی بھی کوئی تیاری نہیں، سیاسی جماعتوں کو بھی نہیں معلوم کہ الیکشن ہورہے ہیں یا نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے سلیم مانڈی والا کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات ضرور ہوں گے اور 8 فروری کو ہی ہوں گے، الیکشن کےانعقاد پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کچھ لوگ شکست کے خوف سے بہانے بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں قصوروار الیکشن کمیشن کو ٹھہراتا ہوں، الیکشن کمیشن کو انتخابات کا شیڈول جاری کردینا چاہئے تھا، شیڈول جاری نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ شیڈول دینے کی ممانعت نہیں ہے، شیڈول کتنے دن کا ہونا چاہئیے اس پر ممانعت ہے، انتخابی شیڈول کم از کم 56 دن کا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک انتخابی شیڈول جاری ہو جانا چاہئے، تاکہ سب لوگ اپنی تیاریاں شروع کردیں۔
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے درست ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس پر پانچ باتیں کرنا چاہوں گا، پہلی بات یہ کہ جو الیکشن ہوئے ہیں وہ بالکل درست ہوئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن چیلنج نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ الیکشن کے خلاف جو درخواستیں دائر ہو رہی ہیں تو درخواستیں دائر کرنے والے پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں، ’جب آپ ممبر ہی نہیں تو آپ کا کوئی حق نہیں کہ آپ پارٹی کے الیکشن میں حصہ لیں یا ان پر اعتراض کریں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تیسرا پوائنٹ یہ ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں بھی اعتراض کر رہی ہیں، میری نظر میں یہ بالکل غلط بات ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’چوتھی بات یہ ہے کہ جب آپ الیکشن کمیشن کے پاس درخواست دائر کریں تو الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس کوئی گنجائش نہیں کہ وہ الیکشن کے اوپر اعتراض کو سنیں، الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں ہے، اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ پتا کرے الیکشن ہوئے ہیں یا نہیں‘۔
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ پانچویں بات یہ ہے کہ اگر یہ آبجیکشن پٹیشن آئی ہیں تو کل ہی الیکشن کمیشن کو یہ درخواستیں پھینک دینی چاہئیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن پینل کی بنیاد پر ہوتا ہے، بیرسٹرگوہر کو دوبارہ چیئرمین کے انتخاب تک کیلئے کھڑا کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن اب کالعدم ہو نہیں سکتا، ’اب تو کوئی عدالت کرے گی تو کرے گی، اس کیلئے بھی جواز چاہیے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس تو اس کا اختیار ہی نہیں ہے‘۔