صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے والا ماحول اور رویے بدلنے ہوں گے۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کے زیر اہتمام تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں خاتون اول بیگم ثمینہ علوی، وفاقی محتسب انسداد ہراسیت فوزیہ وقار، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ، مختلف ممالک کے سفارتکاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔
تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر عارف علوی نے خواتین کو ہراسیت سے پاک ماحول فراہم کرنے لئے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے کہا کہ عوامی مقامات، بمقام کار ( کام کے دوران) اور گھروں میں بھی ساز گار ماحول یقینی بنانا ہوگا۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ مغربی معاشرے میں بہت بعد میں خواتین کے حقوق کی بات ہوئی ہے، 1400سال پہلے حضورﷺ اور قرآن پاک نے خواتین کے حقوق بتا دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مغرب کے ساتھ موازنہ کریں تو ہم خواتین کا وہ کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں جو 1400سال پہلے قرآن و سنت نے خواتین کو دیا تھا۔
صدر مملکت نے کہا کہ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی والدہ، اماں بی کا کردار دیکھیں یا قائداعظم محمد علی جناح کا رتی جناح کو ساتھ لیکر چلنے کا کردار دیکھیں، قیام پاکستان کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اور پاکستان کی سیاست میں بے نظیر بھٹو جیسی خواتین کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے، پاکستان کے اندر ارتقائی عمل جاری ہے، وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کا مقام بلند ہوتا چلا آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی شعبے کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت سی مالی ضروریات ہوتی ہیں لیکن خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ہمیں صرف اپنے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ خواتین کر ہراساں ہونے سے بچانے کے لئے صرف 16دن کافی نہیں ہیں، خواتین کو ہراسیت سے بچانے، بااختیار بنانے، بریسٹ کینسر کی روک تھام، ذہنی بیماریوں سے بچاؤ اور خصوصی افراد کے حقوق کے لئے ہمیں مسلسل پیغام پہنچانا ہوگا اس کی مثال ہمارے پاس کووڈ 19 کی ہے، اس وباء کے دوران پاکستان نے بہترین حکمت عملی اختیار کی، ماسک پہننے، فاصلے رکھنے اور احتیاطی تدابیر کے لئے ہر گھر تک پیغام پہنچایا جس کے ثمرات آئے اور پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جس نے کم جانی نقصانات کے ساتھ کووڈ 19 پر قابو پایا۔
صدر مملکت نے کہا کہ ہر مشکل بشمول جنگوں میں بھی خواتین اور بچوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، غزہ میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا، کیا وجہ ہے کہ یہ ظلم عالمی برادری کو نظر نہیں آرہا، کیوں عالمی برداری خواتین اور بچوں کے قتل عام پر خاموش ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لئے میڈیا کا بھی اہم کردار ہے جس طرح پی ٹی اے نے ایک سال میں ساڑھے 14کروڑ میسجز بھجوائے ہیں، اسی طرح انسداد ہراسیت کے حوالے سے بھی گھر گھر تک پیغام پہنچانا ہوگا۔ ڈراموں، فلموں، ڈاکومنٹریز کے ذریعے خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے اور بااختیار بنانے کا پیغام دینا ہوگا۔ یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ عوامی مقامات، بمقام کار اور گھر کے اندر بھی خواتین کو ہراسیت سے پاک ماحول میسر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مذہب، قائداعظم کے افکار ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ خواتین کو بااختیار بناکر ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے،اس پر عمل درآمد کو تیز سے تیز تر کرنا ہوگا۔
صدر مملکت نے کہا کہ سپر یم کورٹ نے خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے مزید تشریح کی ہے اس میں صنفی ہراسیت بمقام کار کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے مثال دی کہ خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق اپیلوں کی سماعت خود بھی کرتا ہوں اور باریک بینی سے جائزہ لیتا ہوں، یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں لیکن میرے نزدیک وہ چیزیں اس وقت تک سامنے آچکی ہوتی ہیں، اس کے بعد آڈیو یا ویڈیو ثبوت لازمی نہیں رہتا۔
وفاقی محتسب انسداد ہراسیت بمقام کار فوزیہ وقار نے کہا کہ آئین خواتین کی حفاظت، بااختیار بنانے اور زندگی کے ہر شعبے میں شمولیت کا حق دیتا ہے، عوامی مقامات اور بمقام کار تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی محتسب کو دو سالوں کے دوران 5ہزار درخواستیں موصول ہوئیں ہیں، سادہ کاغذ پر درخواست اور انتقامی کارروائی سے تحفظ کی سہولت فراہم کرنے پر خواتین بمقام کار ہراسیت پر بلاخوف و خطر ہم سے رابطہ کرتی ہیں، جب تک خواتین مطمئن اور فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تب تک درخواست نہیں نمٹائی جاتی۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خواتین کی بینکنگ سسٹم تک رسائی اور حصہ بننے کے لئے ساز گار ماحول فراہم کیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک نے تین سالوں کے دوران خواتین کو ڈیجیٹل فنانسنگ کے حوالے سے ان کی دہلیز پر جا کر تربیت فراہم کی ہے، ہماری کوشش ہے کہ بی آئی ایس پی کے ساتھ ملکر 9.3 ملین خواتین کے اکاؤنٹ کھلوائے جائیں۔
ہمارے عملی اقدامات کی بدولت اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں 18 فیصد خواتین مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں ہر سال اس میں اضافے بھی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کی مالیاتی نظام میں شمولیت اور رسائی کو آسان بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔
تقریب کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی عملی زندگی، بمقام کار خدمات کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور موثر انداز سے متعلقہ پلیٹ فارم پر آواز اٹھانے پر مشتمل کامیابیوں پر مشتمل دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی جسے شرکاء تقریب نے خوب سراہا۔