ہفتہ کو جب دہشت گردوں نے چلاس کے قریب پہاڑوں میں ایک مشکل موڑ سے گزرتی بس پر اندھا دھند گولیاں برسائیں تو گاڑی کے اندر افراتفری مچ گئی۔ کچھ مسافر گولیوں سے بچنے کے لیے فوراً گاڑی کے فرش پر لیٹ گئے۔ لیکن ایک ماں نے اپنے بچوں کیلئے وہ کیا جو صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔
گولیاں چلیں تو روشن بی بی نے خود فرش پر لیٹنے کے بجائے فوراً اپنے بچوں کو فرش پر پھینک دیا اور انہیں گولیوں سے بچانے کے لیے اپنے جسم سے ڈھانپ لیا۔
یکے بعد دیگرے، سیسہ کے چھ ٹکڑے جن پر اُن بچوں کا نام لکھا تھا، روشن بی بی کے جسم میں پیوست ہوگئے۔
چھ میں سے چار گولیاں روشن بی بی کی ریڑھ کی ہڈی میں لگیں اور دو جگر اور پیٹ میں لگیں۔
روشن بی بی خود تو شدید زخمی ہوگئیں لیکن انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے چھوٹے بچے محفوظ رہیں۔
گلگت بلتستان کے ضلع چلاس میں شاہراہ قراقرم پر ایک بس پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے کم از کم 9 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے نے عوام کے ذہنوں میں پرانے دہشت گردی کے واقعات کی یاد تازہ کردی۔
دیامر ماضی میں عسکریت پسندوں کی کئی سرگرمیاں دیکھ چکا ہے۔
2012 میں کوہستان میں فرقہ وارانہ حملے میں کم از کم 18 افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال، نامعلوم افراد نے دیامر میں لڑکیوں کے ایک اسکول کو آگ لگا دی تھی، اس واقعے نے لوگوں کو 2018 کے پراسرار واقعے کی ہولناکیوں کی یاد دلا دی تھی جب ضلع میں تقریباً 15 اسکولوں کو جلا دیا گیا تھا۔ لیکن کمیونٹی کو اسکول کو دوبارہ بنانے میں صرف پانچ دن لگے۔
مزید برآں، گلگت بلتستان میں ایک سینئر وزیر اور دیگر لوگوں کو 8 اکتوبر 2022 کو مظاہرین کے ساتھ ”کامیاب“ مذاکرات کے بعد رہا کر دیا گیا، جن میں کچھ ”عسکریت پسند“ بھی شامل تھے، جنہوں نے بابوسر ٹاپ اور چلاس کے درمیان سڑک بند کر دی تھی۔
زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک نے میڈیا کو بتایا کہ بس دوپہر 2 بجے گلگت سے روانہ ہوئی اور شام 6 بجے اس پر حملہ ہوا۔
دہشت گردوں نے بس پر فائرنگ کی تو ڈرائیور نے تیز رفتاری دکھاتے ہوئے وہاں سے بس کو نکالنے کی کوشش کی، اس کوشش میں بس ایک ٹرک سے ٹکرا گئی، لیکن ڈرائیور کی اس کوشش سے کئی جانیں بچ گئیں۔
خیال رہے کہ ہوائی جہاز کے مقابلے میں سستے کرایے کی وجہ سے مقامی لوگوں میں زمینی راستے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن موسم بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے مسافر بسوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
روشن بی بی، ان کے شوہر اور بچے K2 Movers نامی ایک مسافر بس سروس کے زریعے سفر کر رہے تھے، جسے بلتستان کے رہائشی پہاڑی علاقے میں جانے اور جانے کے لیے اکثر استعمال کرتے ہیں۔
پہاڑی علاقے کے بہت سے خاندانوں کی طرح، وہ اپنے بچوں کے لیے بہتر معاش اور معیاری تعلیم کے لیے کراچی جا رہے تھے۔
چلاس سردیوں میں گلگت سے روانہ ہونے والی بسوں کا پہلا سٹاپ ہے، کیونکہ بابوسر ٹاپ روٹ برف باری کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے۔
چلاس بس حملے میں زندہ بچ جانے والے 25 افراد میں سے ایک روشن بی بی اب گلگت کے شہید سیف الرحمان سرکاری ہسپتال میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
روشن بی بی، ان کے شوہر سید احمد شاہ اور ان کے دو بچے بہتر ملازمتوں اور تعلیم کی سہولیات کی تلاش میں اس دن کراچی جا رہے تھے۔
روشن بی بی اپنے زخموں کے باوجود ہوش میں ہیں۔ انہیں فائرنگ ختم ہونے کے بعد کے مناظر اب بھی یاد ہیں۔
روشن بی بی نے آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا، ’جب بس چلاس پہنچی تو اس پر حملہ ہوا۔ میں اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش میں جھک گئی۔ اس دوران مجھے گولیاں لگیں‘۔
روشن بی بی نے گلگت میں موجود آج نیوز کے نمائندے کو بتایا ’ہم گھبرا گئے تھے۔ اور بھی لوگ زخمی تھے۔ ہر کوئی درد اور تکلیف سے کراہ رہا تھا۔‘
ان کے بچے، شوہر اور خاندان کے دیگر افراد اسپتال میں ان کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کے شوہر سید احمد شاہ فائرنگ سے محفوظ رہے۔
روشن بی بی نے بتایا کہ فائرنگ اس وقت رکی جب ان کی بس مخالف سمت سے آنے والے ٹرک سے ٹکرا گئی۔ جس سے ٹرک میں آگ لگ گئی۔
روشن بی بی کے مطابق، جب انہیں گاڑی سے باہر نکالا گیا تو بس کے اندر ”ایک تباہی“ مچی ہوئی تھی۔
انہوں نے بس کے اندر پڑے خون کے دھبے، لاشوں اور زخمیوں کو یاد کرتے ہوئے کہا ’یہ ایک بہت تکلیف دہ صورتحال تھی۔‘
اس خوفناک واقعے کے باوجود، روشن بی بی اپنے بچوں اور شوہر کو بچانے کے لیے ”ڈھال“ بننے کے اپنے فیصلے سے مطمئن تھیں۔
لیکن انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ان کے اپنے شہر اور علاقے میں بہتر سہولیات مواقع فراہم کرے۔
روشن بی بی نے کہا، ’اگر ممکن ہو تو، حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے خاندان کے لیے ان کی دہلیز پر ملازمت کے مواقع فراہم کرے۔‘