پی آئی اے کی نجکاری سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ عدالت نے وزارت قانون، ایوی ایشن، وزارت خزانہ اور دیگر کو نوٹس جاری کردیے۔
سندھ ہائیکورٹ میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عقیل عباسی نے سماعت کی۔
درخواست میں وزارت قانون، ایوی ایشن، وزارت خزانہ اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف پیش کیا گیا کہ نگراں حکومت کو اہم فیصلے کرنے کا اختیار نہیں، اور یہ حکومت از خود کوئی نیا کام نہیں کرسکتی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ نگراں حکومت صرف منتخب حکومت کے کاموں کو مکمل کرسکتی، اسے پی آئی اے کی نجکاری کا اختیار ہی نہیں، یہ پبلک پرائیویٹ کمپنی ہے۔
درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا کہ نجکاری کا عمل آئین کے آرٹیکل 18 سی کی خلاف ورزی ہے، پی آئی اے کی نجکاری کمپنی آرڈینینس سے بھی متصادم ہے، یہ تو امریکا میں روز ویلٹ ہوٹل بھی بیچنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اثاثے بیچ کر خوش ہیں، کہتے ہیں کہ سرمایہ آرہا ہے، کمپنیاں دیوالیہ ہوتی ہیں، لیکویڈیشن ہوتی ہے لوگ خوش ہوتے ہیں پیسہ آرہاہے، یہ سلسلہ نہ جانے کہاں جا کر رکے گا۔
پی آئی اے نجکاری کیلئے سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کی ضرورت نہیں، فواد حسن فواد
نگراں وزیراعظم کی پی آئی اے کی نجکاری کا عمل تیز کرنے کی ہدایت
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بتایا جائے کہ پی آئی اے کو تباہ ہونے سے کیسے روکا جائے،اگر نجکاری کمیشن کے توسط سے کی جارہی ہے تو یہ ایک قانونی ادارہ ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ 2016 میں پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ ادارہ بنا دیا تھا، اب اس کی نجکاری نہیں ہوسکتی، 2023 میں پھر قانون میں تبدیلی کی گئی، آئین میں تبدیلی کیے بغیر پی آئی اے کی نجکاری ممکن نہیں، کسی منتخب حکومت نے کسی سے نجکاری کا معاہدہ نہیں کیا، نگراں حکومت کو اس کا اختیار نہیں۔
عدالت نے وزارت قانون، ایوی ایشن، وزارت خزانہ اور دیگر کو نوٹس جاری کردیےم اور فریقین سے 21 دسمبر تک جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔