امریکا میں مقیم مسلمانوں نے اگلے انتخابات میں موجودہ صدر جو بائیڈن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔
کئی اہم امریکی ریاستوں کے مسلم رہنماؤں نے ہفتے کو عہد کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جنگ پر بائیڈن کے مؤقف کی وجہ سے ان کی انتخابی مہم کی مخالفت کریں گے۔
اس مہم کا نام #AbandonBiden ہے جو اس وقت شروع ہوئی جب مینیسوٹا کے مسلمان امریکیوں نے بائیڈن سے 31 اکتوبر تک جنگ بندی کا مطالبہ کیا، اس کے بعد یہ مہم مشی گن، ایریزونا، وسکونسن، پنسلوانیا اور فلوریڈا تک پھیل گئی۔
بڑی مسلم اور عرب امریکی آبادی کی مخالفت آئندہ انتخابات میں بائیڈن کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے۔
امریکی صدر اور نائب صدر کا انتخاب ”انتخاب کاروں“ (الیکٹورل کالج) کے ایک گروپ کے ذریعے کیا جاتا ہے جنہیں زیادہ تر معاملات میں اس ریاست کی سیاسی جماعتیں منتخب کرتی ہیں۔
مشی گن میں ایک نیوز کانفرنس میں جب بائیڈن کے متبادل کے بارے میں پوچھا گیا تو مینیسوٹا کی کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (CAIR) چیپٹر کے ڈائریکٹر جیلانی حسین نے کہا کہ ’ہمارے پاس دو آپشن نہیں ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے آپشنز ہیں‘۔
امریکی سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ ہے – ڈیموکریٹس اور ریپبلکن – لیکن آزاد امیدوار بھی صدر کے لیے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔
ہارورڈ کے سابق پروفیسر اور ممتاز سیاہ فام فلسفی کارنیل ویسٹ، جو آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں، انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کی مذمت کی ہے۔
گرین پارٹی کے پلیٹ فارم پر دوڑ میں شامل جل سٹین نے بھی غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ 2016 اور 2012 میں بھی امیدوار تھیں۔
تاہم، امریکی سیاسی نظام میں نجی عطیات کی آمد کا مطلب یہ ہے کہ دو بڑی جماعتوں کے امیدواروں کے مقابلے میں کم فنڈنگ والے آزاد امیدواروں کے انتخابی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
مسلمان امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں ان کی برادری کے ساتھ بہتر سلوک کریں گے، لیکن وہ بائیڈن کو ووٹ دینے سے انکار کو امریکی پالیسی کی تشکیل کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ’ہم ٹرمپ کی حمایت نہیں کر رہے، مسلم کمیونٹی فیصلہ کرے گی کہ دوسرے امیدواروں کا انٹرویو کیسے کیا جائے‘۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا مسلم ووٹرز بڑے پیمانے پر بائیڈن کے خلاف ہو پائیں گے؟ لیکن حمایت میں چھوٹی تبدیلیاں ان ریاستوں میں فرق پیدا کر سکتی ہیں جن میں بائیڈن نے 2020 میں کم مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔
ایک حالیہ سروے میں عرب امریکیوں میں بائیڈن کی حمایت میں نمایاں کمی کا انکشاف ہوا ہے، جو کہ 2020 میں کافی اکثریت سے گر کر صرف 17 فیصد رہ گئی ہے۔
عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اس تبدیلی کا مشی گن جیسی ریاستوں میں اہم اثر ہو سکتا ہے، جہاں بائیڈن نے 2.8 فیصد پوائنٹس سے فتح حاصل کی، اور عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 5 فیصد ووٹ عرب امریکی ہیں۔
عام لوگوں کے درمیان، رائے عامہ کے جائزوں میں زیادہ تر امریکیوں نے محاصرہ زدہ علاقے میں اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کی حمایت کی ہے۔