صوبائی وزیر داخلہ شمس لون کا کہنا ہے کہ دیامر واقعہ افسوس ناک ہے جس میں بھارت کا ہاتھ ہوسکتا ہے، اس دہشت گردی کے واقعے کو کسی اور زاویے سے نہ دیکھا جائے۔
گلگت میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ شمس لون کا کہنا تھا کہ دیامر واقعہ افسوسناک ہے اور یہ سراسر دہشت گردی ہے جس میں بھارت ملوث ہوسکتا ہے، اسے کسی اور زاویے سے نہ دیکھا جائے۔
گلگت بلتستان کے عوام خصوصاً جو لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں ان سے التماس ہے وہ اسے مثبت طریقے سے استعمال کریں، اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے بھی گزارش ہے کہ وہ منبر پر بیٹھ کر اس واقعے کی پرزور مذمت کریں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم بہت جلد اس واقعے میں ملوث کرداروں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے، وزیراعلیٰ نے خصوصی ہدایت جاری کی ہے کہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے تمام افراد کا علاج چاہے گلگت میں ہو یا ملک کے کسی بھی شہر میں اس کا خرچہ حکومت گلگت برداشت کرے گی۔
شمس لون کا کہنا تھا کہ گلگت اور پورے صوبے کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے، ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ دہشت گردی کو روکا جائے، تمام مسلمان اس طرح کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں لیکن چند شرپسند عناصر اس طرح کی تخریب کاری میں ملوث ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز 2 دسمبر کو دیامر کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر چلاس شہر کے تھانہ کے۔کے ایچ کی حدود شاہراہ قراقرم ہوڈر کے مقام پر ضلع غذر سے راولپنڈی جانے والی نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے۔ٹو کی بس نمبر ”BLN 4647“ پر نامعلوم افراد کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 9 افراد جاں بحق اور 27 زخمی ہوگئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ کے بعد بس سامنے سے آنے والے سیمنٹ کی بوریوں سے لدے ٹرک سے ٹکرا گئی، جس کے باعث بس میں آگ بھی بھڑک اٹھی۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو 1122 نے جائے وقوعہ پر امدادی کارروائیاں کرتے ہوئے زخمیوں اور لاشوں کو قریبی آر ایچ کیو اسپتال منتقل کردیا، اور زخمیوں کی مدد کے لئے چلاس کے ہزاروں مقامی افراد بھی اسپتال پہنچ گئے اور انہوں نے خون کے عطیات دئیے اور زخمیوں کے علاج میں مدد کی۔
ڈپٹی کمشنر دیامر کیپٹن (ر) عارف احمد خان نے آج نیوز کو بتایا کہ چلاس میں شاہراہ قراقرم ہوڈر کے مقام پر شام ساڑھے چھ بجے کے قریب مسافر بس پر مسلح افراد نے فائرنگ کردی، فائرنگ کے باعث بس ٹرک سے ٹکراگئی جس سے بس میں آگ بھڑک اٹھی۔ 9 افراد جاں بحق اور 27 زخمی ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر عارف خان نے بتایا کہ مسافروں کا تعلق کوہستان، پشاور، غذر، چلاس، اسکردو اور سندھ سے ہے۔