برطانوی سائنسدانوں نے ایک ایسا لیزر کیمرہ تیار کیا ہے جو کسی بھی شخص کے دل کی دھڑکن کو دور سے پڑھ سکتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ وہ دل کی بیماریوں میں مبتلا ہے یا نہیں۔
اسکاٹ لینڈ کی گلاسگو یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ نظام جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور کوانٹم ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتا ہے، ہماری صحت کی نگرانی کے طریقے کو بدل سکتا ہے۔
یونیورسٹی کے ایڈوانسڈ ریسرچ سنٹر کے پروفیسر ڈینیئل فاشیو کا کہنا ہے ’یہ ٹیکنالوجی شاپنگ مالز کے اندر بوتھس میں لگائی جا سکتی ہے جہاں لوگ اپنی دل کی دھڑکن کو پڑھ سکتے ہیں، اور پھر اپنے آن لائن میڈیکل ریکارڈ میں شامل کرسکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’لیزر ہارٹ مانیٹر کسی بھی شخص کے گھر میں نصب کیا جا سکتا ہے، جس سے گھریلو ماحول میں صحت کے مختلف پیرامیٹرز کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔‘ اس کے ساتھ دیگر آلات میں بلڈ پریشر کی اونچ نیچ یا خون کے بہاؤ میں باریک تبدیلیوں کو ٹریک کرنے کے لیے مانیٹر شامل ہوں گے جو الزائمر کی بیماری کے آغاز کی ابتدائی علامت ہے۔
فاشیو نے مزید کہا کہ دور سے کسی شخص کے دل کی دھڑکن کی نگرانی کرنا قابل قدر اقدام ہوگا، کیونکہ دل کی بے قاعدگیاں یہ انتباہ فراہم کر پائیں گی کہ اس شخص کو فالج یا دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ ہے۔
فی الحال، ڈاکٹر دل کی دھڑکنوں کی نگرانی کے لیے اسٹیتھوسکوپ کا استعمال کرتے ہیں، جو 19ویں صدی کے اوائل میں فرانسیسی سرجن رینے لاؤنیک نے ایجاد کیا تھا، کیونکہ وہ خاتون مریض کے سینے پر کان لگانے سے بچنا چاہتے تھے۔
اسٹیتھوسکوپ ایک ڈسک سائز کے ریزونیٹر پر مشتمل ہوتا ہے جسے جب کسی شخص کے جسم پر رکھا جاتا ہے، تو اندر کی آوازیں تھرتھراہٹ کی شکل میں سنائی دیتی ہیں، ان آوازوں کو سننے والا شخص ٹیوبوں اور ایئر پیس کے ذریعے سن اور بڑھا سکتا ہے۔
فاشیو کا کہنا ہے کہ ’اسٹیتھوسکوپ کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر مریض کے سینے پر بہت زور سے اسے دبایا جائے تو یہ دل کی دھڑکن کے سگنل کو کم کر دے گا۔ اور اسی طرح پس منظر کی گڑگراہٹ کا پتہ لگانا بھی مشکل ہو سکتا ہے، جو دل کی دھڑکن کے پیچھے ہونے والے نقائص کی اہم علامات فراہم کرتی ہیں۔‘
فاشیو اور ان کی ٹیم کے تیار کردہ اے آئی نظام میں تیز رفتار کیمرے شامل ہیں جو 2,000 فریم فی سیکنڈ کی رفتار سے تصاویر ریکارڈ کر سکتے ہیں۔
اس نظام کے تحت ایک لیزر بیم کو کسی شخص کے گلے کی جلد پر منعکس جاتا ہے اور ان عکاسیوں سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جلد کتنی بڑھ رہی ہے اور گھٹ رہی ہے، کیونکہ گلے میں موجود مرکزی شریان پھیلتی اور سکڑتی ہے۔ ان تبدیلیوں میں ایک میٹر کے صرف چند اربویں حصے کی حرکت شامل ہے۔
فاشیو نے کہا کہ حالانکہ خود ان چھوٹے اتار چڑھاؤ کا سراغ لگانا دل کی دھڑکن کو ٹریک کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ ’دوسرے، ایک شخص کے اس کی سانس لینے سے اس کے سینے پر بہت بڑی حرکتیں ہوتی ہیں، جو اس کے دل کی دھڑکن سے سگنلز کو مغلوب کر دیتی ہیں‘۔
فاشیو کے مطابق ’یہی وہ مقام ہے جہاں اے آئی کام آتا ہے، ہم ہر چیز کو فلٹر کرنے کے لیے جدید کمپیوٹنگ سسٹم کا استعمال کرتے ہیں، سوائے کسی شخص کے دل کی دھڑکن کی وجہ سے ہونے والی تھرتھراہٹ کے، حالانکہ یہ ان کے سینے سے نکلنے والی دیگر آوازوں کے مقابلے میں بہت کمزور سگنل ہے۔ ہم انسانی دل کی دھڑکن کی فریکوئنسی رینج کو جانتے ہیں، اور اے آئی اس پر فوکس کرتا ہے‘۔
’اس کے نتیجے میں آنے والے سگنلز کا تجزیہ طبی عملے کو دل کی دھڑکن میں تبدیلیوں کا پتہ لگانے کی اجازت دیتا ہے، یہ ان کے دل میں ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنے اور مخصوص نقائص کی نشاندہی کرنے کو انمول بناتا ہے‘۔
فاشیو کی ٹیم نے ایک اسٹارٹ اپ کمپنی“LightHearted AI“ قائم کی ہے، جو اب اپنے آلات کی ترقی کو بڑھانے کے لیے وینچر کیپیٹل کی تلاش میں ہے۔
فاشیو نے کہا کہ ’یہ نظام بہت درست ہے، یہاں تک کہ اگر آپ 10 لوگوں کے ساتھ ایک گھر ،میں رہتے ہیں، تو یہ صرف آپ کے گلے پر لیزر منعکس اور اس کی عکاسی سے آپ کے دل کی دھڑکن کا تجزیہ کر سکرا ہے، درحقیقت اس نظام کا ایک اور استعمال بائیو میٹرک شناخت کے لیے ہے‘۔