Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2023 05:15pm

الیکشن میں آر اوز عدلیہ سے لینے کے سوال پر سکندر سلطان کی مسکراہٹ، ’نو کمنٹس‘ کا جواب

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کا کہنا ہے کہ انتخابی شیڈول الیکشن سے 54 روز پہلے جاری ہوگا، الیکشن میں آر اوز عدلیہ یا بیورو کریسی سے لینے کے سوال پر چیف الیکشن کمشنر کا ’نو کمنٹس‘ کا جواب دیا۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں شائع ہوچکی ہیں، باقی سب کچھ اپنے وقت پر ہوگا۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ہم سب کچھ اپنے وقت سے پہلےکررہے ہیں، الیکشن شیڈول، آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی بھی وقت پر ہوگی۔

مزید پڑھیں:

سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کو فوری عام انتخابات کا اعلان کرنے کا حکم

صحافی نے سوال کیا کہ انتخابی شیڈول کب جاری ہوگا۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ8 فروری سے پیچھے 54 دن کا حساب لگا لیں۔

صحافی نے سوال کیا کہ آر اوز اور ڈی آر اوزعدلیہ یا بیورو کریسی سے لیں گے۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے مسکراتے ہوئے نو کمنٹس کا جواب دیا۔

عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے

سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے 3 نومبر کو ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے مطابق الیکشن 8 فروری 2024 کو ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کے تحت تاریخ کا اعلان کیا۔ اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفکیشن بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ نوٹیفکیشن پر 3 نومبر کی تاریخ درج تھی۔

سپریم کورٹ نے 90 روز میں عام انتخابات کی تمام درخواستیں نمٹادیں، اور حکمنامہ جاری کیا ہے کہ ‏انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضامندی سےحل ہوچکا ہے، 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے۔

سپریم کورٹ میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ میں شامل تھے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے صدر مملکت کے دستخط شدہ منٹس عدالت میں پیش کیے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ اوریجنل ہیں یا کاپیاں ہیں۔

منصور اعوان نے جواب دیا کہ ایک اوریجنل ہے باقی تین کاپیاں ہیں، اس کے بعد اٹارنی جنرل نے صدر اور الیکشن کمیشن حکام کے مابین ہونے والی کل کی ملاقات کے منٹس بھی عدالت عظمیٰ کو پڑھ کر سنائے۔

Read Comments