آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت نےسائفرکیس کی سماعت چار ہفتوں میں مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے جب کہ سماعت جیل میں ہونے کے حوالے سے جمعہ کو پہلے ابہام دیکھا گیا تاہم بعد میں جیل سماعت کا نوٹیفکیشن عدالت کو موصول ہوگیا اور عدالت نے قرار دیا کہ ہفتہ کو جیل میں سماعت ہوگی۔**
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین سفارتی سائفر گمشدگی کیس کی سماعت کی۔
ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقارعباس نقوی، پی ٹی آئی وکلا، شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو و دیگر اور عمران خان کی بہنیں بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
وکیل تیمورملک نے کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی عدالت پیشی پردلائل ہوئے تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کو خدشات ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کو نہیں۔
تیمور ملک نے کہا کہ رات تک علم نہ تھا عدالت کہاں لگے گی، عدالت جہاں بھی لگے ان کو پیش تو کرنا تھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے عدالت کا آرڈر پڑھا تھا کیا؟ پورا آرڈر پڑھیں، جس پر تیمور ملک نے عدالت کا گزشتہ سماعت والا آرڈر پڑھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عدالتی عملہ سے استفسار کیا کہ نوٹیفکیشن آیا ہے یا نہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ ابھی جیل سماعت کا نوٹی فکیشن نہیں آیا۔
خصوصی عدالت نے کہا کہ نوٹیفکیشن آتا ہے تب تک انتظارمیں رکھتے ہیں، نوٹیفکیشن آجاتا ہے تواس کو دیکھ لیتے ہیں، آج آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ ملزمان کو پیش کرنے کا حکم دیں گے۔
وکیل نے عدالت سے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو پیش کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود ہی اپنے آرڈر کی نظرثانی کردی جو نہیں کر سکتے تھے، آپ کا آرڈر جیل ٹرائل کے حوالے سے قانونی طور پر درست نہیں۔
جواب میں عدالت نے کہا کہ نوٹیفکیشن آجائے تو ہم دیکھ لیتے ہیں ورنہ ہم پروڈکشن آرڈر کروائیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالت کا 23 نومبرکا ملزمان کی پروڈکشن آرڈر تھا اور پھرعدالت نے اپنے ہی آرڈر پر نظر ثانی کردی، اس پر جج کا کہنا تھا کہ آپ 28 نومبرکا آرڈر پڑھیں آپ کی تمام باتوں کا جواب مل جائے گا۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ وزارت قانون نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، خصوصی عدالت ہائی کورٹ کے احکامات کی پابند ہے، شاہ محمود کو عدالت پیش کرنے کی ذمہ داری سکیورٹی اداروں کی ہے، البتہ فرد جرم، نقول کی تقسیم سب کچھ ملزم کی موجودگی میں ہونا چاہئے۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا خطرات کے حوالے سے دیکھنا عدالت کا اختیار ہے؟ وکیل صفائی نے جواب میں کہا کہ اگر کوئی ایڈیشنل آئی جی کہہ دے تو ناکافی ہے، لہٰذا اس کی منسلک رپورٹس بھی ہونی چاہئے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے خط کےساتھ سیکیورٹی رپورٹس بھی منسلک ہیں، البتہ صحافیوں کی موجودگی جیل میں ٹرائل کے دوران ضروری ہوگی اور جیل کو عدالت ڈکلیئر کرنے کے ساتھ غیر ممنوعہ جگہ بھی ڈکلیئر کیا جائے گا۔
شاہ محمود کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ آپ کے آرڈر میں شاہ محمود کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا، اس آرڈر میں جیل ٹرائل وجوہات کا ذکر موجود نہیں جب کہ انہیں عدالت پیش کرنے پراب بھی سوالیہ نشان ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ انصاف نہ صرف ہوگا بلکہ ہوتا نظر بھی آئے گا، البتہ خصوصی عدالت جیل میں ٹرائل کرنے کی پابند تھی لیکن سماعت جیل سے مشروط ہے، میں وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کا انتظار کر رہا ہوں۔
وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت ہی ادھر لے جائیں، اس پر جج نے جواب دیا کہ عدالت لے چلیں گے جیل میں، فکر نہ کریں، ٹرائل پینڈنگ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اصل ملزم جب کہ شاہ محمود قریشی شریک ملزم ہیں۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اب تک کی سماعتیں غیر قانونی قرار نہیں دیں بلکہ اوپن کورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ گزشتہ آرڈر کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قید رکھنا غیر قانونی ہے۔
دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں روسٹرم پرآگئیں، علیمہ خان نے عدالت سے پوچھا کہ جج صاحب نوٹی فکیشن کب آئے گا؟ اس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جواب دیا کہ وزارت قانون کا نوٹیفکیشن اگرنہیں آیا تو منگوا لوں گا۔
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ہم کمرہ عدالت کے ساتھ ہی بیٹھ جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ عدالت نے سائفر گمشدگی کیس میں وقفہ کیا۔
سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عدالت نے کہا کہ نوٹی فکیشن آگیاہے،اس کیس کو کل کے لیے رکھ لیتے ہیں، ہائی کورٹ احکامات بھی ہیں، کل حاضری لگالیں گے۔
خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ شاہ محمود کے حوالے سے بھی نوٹیفکیشن میں تحریرکیا گیا، درخواست نمٹادی ہے، اس پر وکیل نے کہا کہ ابھی تواس پر دلائل بھی نہیں ہوئے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ کل جیل میں دے دینا پھر، ان کی پروڈکشن کا مسئلہ ہے،کل اگلی تاریخ دے دیں گے۔
اسپیشل پراسیکیوٹرکی آج ہی اڈیالہ جیل میں سماعت مقررکرنےکی استدعا کردی۔ عدالت نے کہا کہ میں نے اطلاع دینی ہے دوسرے اقدامات ہونے ہیں آج ہی کیسے کریں۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ ہفتے کو ہائی کورٹ، سپریم کورٹ بند ہوتی ہیں، ٹرائل کورٹس میں ہمارے کیسز ہوتے ہیں، ہفتہ اور پیر کے روز ہمارے لیے اہم ہوتے ہیں، لہٰذا اگلی سماعت 5 دسمبر کو رکھ لیں۔
بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس کی سماعت اور پروڈکشن سے متعلق درخواست پر سماعت بھی ہفتہ تک کے لیے ملتوی کردی۔
جج نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 28 نومبرکے آرڈرکی روشنی میں سائفرکیس کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہوگا اور ہائیکورٹ نے ڈائریکشن دی ہے کہ سائفرکیس کا ٹرائل4 ہفتوں میں مکمل کرنا ہے۔