پاکستانی سیاست میں خواتین کی شرکت کئی لحاظ سےاہم ہے ,ملک میں خواتین نصف آبادی ہیں ان کے تجربات اور خصوصی ضروریات کو مد نظر رکھنا ضروری ازحد ضروری ہے.اس لیے کہ خواتین کی شرکت سیاست کو جامع اور تنوع پسند بناتی ہے اور مختلف معاشروں کی تمثیل دیتی ہے.خواتین کی شرکت سے ملک کی سیاست میں عدالت اور انصاف کی تعزیر میں مدد ملتی ہے.تو وہیں ان کے حقوق کی حفاظت اور تسلیم شناخت کے امور میں خواتین کی شرکت مؤثر ہوتی ہے وہیں ان کی نظریں اور جذبات مختلف موضوعات پر نئے اور تخلیقی حل تیار کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں. لیکن اس سب کے باوجود اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ پاکستان میں پدر شاہی نظام کو زیادہ برتری حاصل ہے ایسے میں اگر ہمیں بے نظیر بھٹو ، عابدہ حسین ، بیگم نسیم ولی ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ،جیسی مثالیں نظر آئیں تو یہ یقینا اس بات کی دلیل ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہےلیکن اس سب کے باوجود اس مقام تک پہنچنے میں ان خواتین کی ذاتی مظبوط حثیت اور ان کے خاندانی پس منظر سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا۔
2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی 49.6 فیصد آ بادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن اگر الیکشن میں ان کی شمولیت دیکھی جائے تو یہ محض 20فیصد سے کچھ ہی اوپر ہے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ووٹرز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 ہے، جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار 258 ہے، 2018 میں خیبرپختونخوا میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 40 فیصد رہا تھا جبکہ شانگلہ سمیت دو حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم ہونے پر الیکشن دوبارہ کروانے کے احکامات جاری ہوئے تھے _
پاکستانی سیاست میں خواتین سیاستدانوں کا کردار تاریخی طور پر مختلف ہے. خواتین نے مختلف سطح پر سیاست میں حصہ لیا ہے اور ان کا کردار مختلف حکومتوں کے دوران تبدیل ہوتا آیا ہے. خواتین نے وزارتوں میں عہدے حاصل کیے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی اہم کردار ادا کیے ہیں.بینظیر بھٹو پاکستان سمیت مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں اور اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں اور پالیسیز کے سبب انہوں نے نہ صرف خود کو ایک سیاسی گھرانے کی بہترین نمائندہ بلکہ ملک کے لئے بھی حقیقی لیڈر کے طور پر تسلیم کروایا عوامی سطح پر بھرپور مقبولیت سمیٹی ،بے نظیر بھٹو نے امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ1977 میں لندن سے پاکستان واپس آئیں۔ 1978 میں جنرل ضیاء الحق پاکستان کے صدر بنے۔ ان کی آمد کے دو سال بعد ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں مجرم ٹھہراتے گئے اور انہیں پھانسی دے دی گئی اپنے والد کی وفات کے بعد بے نظیر نے اپنے خاندان کی سیاسی قیادت سنبھالی۔10 اپریل 1986 کو انہوں نے پاکستان میں فوجی حکمرانی کے خلاف تحریک شروع کی۔ ضیاء الحق 1988 میں طیارے کے حادثے میں جانبحق ہوگئے تھے ، جس کے بعدانہوں نے اایک انقلابی لیڈر کی صاحبزادی ہونے کے ناطے ایک بھرپور انتخابی مہم چلائی یکم دسمبر 1988 کو وہ 35 سال کی عمر میں پاکستان اور دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔
بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کی وزیراعظم رہیں۔ پہلی بار 1988 سے 1990 جب صدر غلام اسحاق خان نے 6اگست کو کرپشن کے الزامات میں انہیں عہدے سے برطرف کردیا اور دوسری بار 1993 سے 1996 تک۔ بے نظیر کو 1999 میں ایک بار پھر بدعنوانی کے مقدمات میں سزا کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو 2007 میں وطن واپس آئیں جب فوجی طاقت دم توڑ رہی تھی اور لوگ جمہوریت کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔ انہیں 27 دسمبر 2007 کو انتخابی مہم کے دوران ہی قتل کر دیا گیا۔اور پاکستانی سیاست ایک جید اور زیرک خاتون سیاستدان سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئی ، اسی طرح خواتین سیاستدانوں نے اپنی موجودگی کو ہر ایوان میں محسوس کروایا ہے، جیسے کہ تعلیم، صحت، اور عوام کی خدمت.خواتین سیاستدانوں کا کردار ماضی سے آج تک تبدیل ہوتا رہا ہے اور ان کی موجودگی سیاست کو مزید جامع بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
ماضی میں خواتین مخصوص نشستوں پر ہی ایوان میں آتی تھیں لیکن اگر یہاں مخصوص نشستوں کا احاطہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان خواتین کو کسی نہ کسی سیاسی وابستگی کے سبب ہی ایوان میں آنے کا راستہ ملاہے ، عوام انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اپنا نمائندہ چنتے ہیں لیکن جب خواتین کی بات آتی ہے تو انہیں مخصوص نشستوں کے ذریعے بلا مقابلہ اسمبلیوں تک رسائی مل جاتی ہے ، فافن (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کی دو فروری 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 57 فیصد خواتین صرف چھ بڑے شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی رہائشی ہیں۔
سندھ اسمبلی میں 66 فیصد کراچی سےرہیں ۔پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین میں سے 59 فیصد کا تعلق لاہور اور خیبر پختونخوا میں 50 فیصد کا تعلق پشاور سے ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی میں 73 فیصد کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور جب ان خواتین کے پس منظر کو دیکھا جائے اور تفصیل میں جایا جائے تو تانے بانے سیاسی اثرورسوخ اور ہائی پروفائل تعلقات سے ملتے ہیں تو مخصوص نشستوں کو قابل اعتراض بنانے کے لئے یہ نقظہ از خود ہی ایک مظبوط اعتراض کے طور پر سامنے آتا ہے، دوسری جانب فافن رپورٹ کے مطابق ملک کے 136 اضلاع میں سے 105 اضلاع ایسے ہیں جن میں سے مخصوص نشستوں پر ایک بھی رکن قومی اسمبلی نہیں ہے ، پنجاب کے 23، بلوچستان کے 32، خیبر پختونخوا کے 30 اور سندھ کے 20 اضلاع میں قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی نمائندگی نہیں ہے،2018کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لیے پانچ فیصد خواتین کو عام نشستوں پر امیدوار نامزد کرنے کی شرط عائد کی گئی تھی جس کا مقصدسیاسی میدان میں خواتین کی شمولیت کو بہتر بنانے تھا اور اس کے لئے مخصوص اقدمات بھی کئے گئےتاہم پھر بھی مُنتخب ہو کر ایوانوں میں گنتی کی چند خواتین ہی پہنچیں ، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا کہ خیبر پختونخوا میں دیر ، چترال ، چارسدہ اور خیبر جیسے اضلاع سے پہلی بار خواتین بھی سیاسی میدان میں اتریں ،خواتین کے حقوق اور انہیں معاشرے میں انصاف دلانے کے لیے قائم ادارے قومی کمیشن برائے وقار نسواں این سی ایس ڈبلیو کی موجودہ چیئرپرسن نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے لیے ایک بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ انہیں اکثر تعداد پورا کرنے کے لیے وفود میں شامل کیا جاتا ہے۔‘ نیلو فر بختیار کہتی ہیں کہ خواتین کی سیاست میں شرکت کو بڑھانا اہم ہے تاکہ ملک کی ترقی اور توانائی میں اضافہ ہو سکے۔
آخری قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص نشستوں میں سے تحریک انصاف 28، مسلم لیگ (ن) 16، پیپلز پارٹی 9، متحدہ مجلس عمل کو 2 نشستیں ملیں۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، ایم کیو ایم پاکستان، ق لیگ، بی اے پی، بی این پی کے حصے میں خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست آئی تھی
جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کو مختص 22 نشستوں پر لایا گیا ، اور 26 خواتین اسمبلی کا حصہ رہیں جن میں بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کی تھی ، عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون بلور کی بم دھماکے میں شہادت کے سبب ان کی جگہ ان کی اہلیہ ثمر بلور پی کے 78 سے جنرل سیٹ جیت کر ایوان میں آنے میں کامیاب ہوئیں ، اسی طرح خواتین کو کابینہ میں بھی ہمیشہ کم نمائندگی دی گئی اگر آخری حکومت میں کابینہ کا تذکرہ کیا جائے تو سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر وزیراعظم شہباز شریف کی 37 رکنی اراکین پر مشتمل مخلوط کابینہ کی تشکیل میں خواتین کی تعداد محض 5 رکھی گئی تھی جن میں 3 وفاقی وزرا اور 2 وزرائے، مملکت شامل تھیں یہ تمام خواتین بھی کہیں نہ کہیں عرصہ دراز سے سیاسی وابستگیاں رکھتی ہیں ، مریم اورنگزیب ، حنا ربانی کھر ، شازیہ مری ، عائشہ غوث پاشا،شیری رحمان آخری کابینہ کا حصہ رہی ہیں ۔
ایوانوں میں مخصوص نشستوں اور جنرل سیٹس پر آنے کے حوالے سے خود خواتین کی کیا رائے ہے اس سے متعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی ثمر ہارون بلور کہتی ہیں کہ مخصوص نشستوں پر خواتین کے لئے قدرے آسان ہوتا ہے کیونکہ انتخابات میں پہلے ٹکٹ حاصل کرنا اس کے بعد انتخابی مہم چلانا مقابلہ کرنا ، ووٹس حاصل کرنا خاص طور پر خیبر پختونخوا جیسے قدامت پسند معاشرے میں اتنا آسان کام نہیں ہے جہاں خواتین کو لیڈر شپ پوزیشن پر دیکھنا ابھی خاص قابل قبول نہیں ہے ، دوسری جانب ان کا کہنا ہے کہ مختص سیٹ پر اسمبلی میں آنے والی خواتین اور جنرل سیٹس پر آنے والی خواتین کے ساتھ پارٹی اور لوگوں کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے ، انتخابی مہم کے تحت آنے والی خواتین اپنے حلقے سے جیت کر آتی ہیں ان کے پاس ترقیاتی فنڈز ہوتے ہیں وہ حلقے کے لئے کام کرسکتی ہیں جبکہ مختص نشستوں پر آنے والی خواتین کو کچھ خاص موضوعات پر بات اور کام کرنے کے لئے پارٹیز کی جانب سے محدود کردیا جاتا ہے جیسے کے خواتین بچوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق ،انہیں ایسے روئیے کے بجائے خواتین کو معیشت ، صحت اور تعلیم جیسے منصوبوں میں شریک کرنا چاہیے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ایوان کی رکنیت سے فایدہ اٹھا سکیں جو معاشرے کی ترقی کے لئے اہم ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئررکن نگہت اورکزئی کہتی ہیں خواتین کو صنف کی بنیاد پر صرف آگے بڑھنے سے ہی نہیں روکا جاتا بلکہ مخصوص نشست پر آنے والی اراکین اسمبلی کو لوگوں کی چبھتی ہوئی نظروں اور طعنوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب خواتین کے خاموشی اختیار کرنے کے رویے کے سبب بھی ہوتا ہے جس کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے یعنی جب آپ ایک پوزیشن پر ہوکر اپنے حق کے لیے بات نہیں کریں گی تو پسے ہوئے طبقے کی مجبور خواتین کے حق کے لئے کیا ہی آواز اٹھائیں گی وہ کہتی ہیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اکثریت خواتین ایسی ہیں جو اقربا پروری کی بنیاد پر آئی ہیں، اور سیاست سے نابلد ہوتی ہیں وہ سیاسی امور میں دلچسپی بھی نہیں لیتیں ایسی خواتین کی وجہ سے سنجیدہ سیاستدان خواتین کا نام بھی خراب ہوتا ہے۔’ ان کا کہنا ہےکہ الیکشن میں براہ راست حصہ لینے سے ہی سیاست میں خواتین کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوسکتا ہے جو مخصوص نشستوں پر ممکن نہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کی رکن رابعہ بصری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کی جماعت میں مخصوص نشستوں کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت میں جو خواتین ریزروڈ سیٹس پر آئی ہیں ان سب کے پاس پارٹی رکنیت تھی، اور یہ بھی کہ انہوں نے پارٹی کے لیے بہت کام کیا تھا، جس کے بعد وہ میرٹ پر سیلیکٹ کی گئیں تھیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی رہنے والی شگفتہ ملک کا اس حوالے سے موقف ہے کہ الیکشن لڑنے کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور پدر شاہی پاکستانی معاشرے میں خواتین کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ مالی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں انہیں اپنے زیادہ تر معاملات میں مردوں پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے ،ان کا کہنا تھا ،اگر سیاسی جماعت کسی خاتون کو ٹکٹ بھی دے پھر بھی خواتین مہم نہیں چلا سکتیں، جلسے جلوس نہیں کر سکتیں۔ ایسے میں مخصوص نشستوں پر بھی اگر خواتین نہ آئیں تو ان کی نمائندگی تو صفر ہو جائے گی ۔ جہاں تک عوام کی جانب سے مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کی کردارکشی کی بات ہے تو یہ ایک مائنڈسیٹ ہے جو تعلیم اور شعور کے ساتھ بدل سکتا ہے ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان میں 11 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے مطابق خواتین امیدواروں کو انتخابات میں شرکت کے لئے بہترین اور بلا خوف ماحول مہیا کرنے کی ہر ممکن کوشیش کی جائے گی، کمیشن کا یہ عزم ہے کہ آنے والے انتخابات میں خواتین کو ہرقسم کے تشددسے پاک ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ نہ صرف بطور ووٹرز بلکہ بطور امیدوار بھی حصہ لے سکیں اس ضمن میں خواتین اور مرد ووٹروں کے درمیان جینڈر گیپ کو ختم کرنا الیکشن کمیشن کا مشن ہے، جسے وہ ضرورپورا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نادرا اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن چاروں صوبو ں میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ کے اندراج میں مسلسل کوششیں کررہاہے اور کمیشن انتخابی عمل میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشددکے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں مختلف ضمنی انتخابات میں خواتین امیدواروں اور خواتین ووٹرز کے خلاف تشدد کی ہر کوشش کو ناکام بنایا گیاہے اورالیکشن کمیشن نے ایسا کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے چیف الیکشن کمشنر نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت اور دیگر امور کےلیے ضروری قانون سازی کے لیے الیکشن کمیشن ہر قسم کی معاونت فراہم کرئے گا۔ آئندہ عام انتخابات میں قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا.
خواتین چاہے مخصوص نشستوں پر آئیں یا پھر ووٹ کے ذریعے منتخب ہو کر ایوان تک پہنچیں، ایک بات تو طے ہے کہ پاکستانی سیاست میں خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سیاست میں شرکت کرکے وہ قومی ترقی اور تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اور مختلف قوانین اور پالیسیوں کی تشریع میں شرکت کرتی ہیں۔ ان کی شمولیت سیاستی فیصلوں کی تشخیص میں اہم ہوتی ہے اور ان کی شمولیت انصاف کی راہوں میں تسلیم کی روشنی میں اہم ہوتی ہے لہذا خواتین کو صرف الیکشن کے تقاضے پورے کرنے کے لئے انتخابی عمل کا حصہ نہ بنایا جائے بلکہ اسمبلی تک آنے پر انہیں حقیقی معنوں میں وہ اختیارات بھی تفویض کیے جائیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں حقیقی معنوں میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔