کامیاب افراد یعنی سی ای اوز، کمپنی کے بانیان، جدت طراز افراد کو آپ نے عام آدمی کے مقابلے زیادہ ڈپریشن کی شکایت کرتے دیکھا ہوگا۔
فوربز کے مطابق اوسط سی ای اوز میں ناصرف نفسیاتی مسائل کا امکان زیادہ ہوتا ہے بلکہ ان کے نشے میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اتھارٹی کو ڈپریشن سے جوڑا جاسکتا ہے، اس لیے سی ای او زعام لوگوں کی شرح سے دوگنا ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔
کچھ مطالعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امیر بچے اپنے درمیانی یا کم آمدنی والے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ افسردہ اور پریشان ہوتے ہیں، جب کہ کم امیر، کم صنعتی ممالک کے مقابلے میں امیر ممالک میں ڈپریشن زیادہ عام ہے۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈپریشن کسی بھی سطح پر ہر کسی کو متاثر کرسکتا ہے، کوئی بھی چاہے وہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو یا صرف نارمل زندگی بسر کر رہا ہو، اس سے محفوظ نہیں۔
درحقیقت، تاریخ کے کچھ کامیاب ترین افراد مسلسل ڈپریشن کا شکار رہے ہیں، بعض شخصیات نے اپنی لڑائیاں جیتیں یا کم از کم جنگ جاری رکھی جب کہ کچھ لوگ اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ذیل میں دی گئی کچھ ایسی وجوہات ہیں جس سے اندازہ معلوم ہوگا کہ انتہائی کامیابی کو چھونے والے افراد ڈپریشن کا کیوں شکار ہوتے ہیں۔
ماہر نفسیات اور ایوارڈ یافتہ کتاب کی مصنفہ ڈیبورا سرانی کہتی ہیں کہ میں ایسے کئی ہائی پروفائل افراد کو جانتی ہوں جو بلاشبہ ڈپریشن کے ساتھ زیادہ جدوجہد کرتے ہیں، البتہ دوسری جانب کم آمدنی والے ممالک میں ڈپریشن کی شرح کم ہے کیونکہ وہاں اتنا زیادہ مقابلہ نہیں ہوتا۔
انتہائی کامیابی اور وہاں تک پہنچنے کے لئے غیر معمولی وقت اور کوشش زندگی کو بے چینی اور تنہائی سے بھرپور بنا سکتے ہیں۔
دولت، خاص طور پر جب یہ بہت اچانک آتی ہے تو لوگوں کو خود سے الگ تھلگ محسوس کرا سکتی ہے، یا جیسے وہ خود کو مزید پہچاننا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
کمپاس ہیلتھ گروپ کے ماہر نفسیات آرنلڈ واشٹن کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ان لوگوں میں بھی زیادہ عام ہوسکتا ہے جو صرف دولت کمانا جانتے ہیں، کیونکہ وہ مشکل وقت میں خود کو سنبھالنا نہیں جانتے۔ لہٰذا جب وہ اپنے آپ کو تنگ گلی میں پاتے ہیں۔
اگر آپ گہری اور مکمل سوچ کے عزم پر حکمرانی کرتے ہیں تو آپ دفتری خیالات میں پھنس سکتے ہیں اور یہ خیالات آپ کو مایسی میں مبتلا کردیں گے۔
جب کاروبار اچھا نہ چلے تو ڈپریشن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اچھے معاشی ادوار میں لوگ جنون کی حد تک کامیابی کے عادی ہوجتے ہیں، لیکن ایسا ہمیشہ تو نہیں چل سکتا۔ اگر وہ سنگ میل حاصل نہ کرسکیں تو خود کو خالی محسوس کرتے ہیں۔