صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں اتوار 27 نومبر کو ایک لڑکی کے قتل کی خبر سامنے آئی جس کی وجہ سوشل میڈیا پر ایک لڑکے کے ساتھ تصاویر وائرل ہونا بتائی جاتی ہے۔
اس ہولناک واقعے میں 18 سالہ لڑکی جان سے گئی۔ پولیس نے ابتدائی طور پر بتایا کہ لڑکی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ایک مقامی جرگے نے مبینہ طور پر اسے قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے گھر کے اندر گولی ماردی گئی۔
اطلاعات ہیں کہ وائرل تصاویر میں ایک دوسری لڑکی کو بھی اسی شخص کے ساتھ دیکھا گیا تھا جسے بیان کے بعد مقامی عدالت نے اس کے اہل خانہ کے حوالے کردیا۔
کوہستان اپنی قبائلی روایات اور خفیہ رازوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 2012 میں بھی سامنے آیا تھا جب مقامی مردوں کے ساتھ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پانچ لڑکیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا پورا واقعہ اتنا خفیہ تھا کہ کئی سالوں پر محیط تحقیقات بھی اس بات کا تعین نہیں کر سکیں کہ کتنی لڑکیوں کو قتل کیا گیا۔ سال 2018 میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پانچ میں سے دو لڑکیاں زندہ ہیں۔
کولئی پالس 2017 تک ضلع کوہستان کا حصہ تھا جب اسے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ وائرل تصویروں میں نظر آنے والی دو لڑکیاں کولائی پالس کے برشریال گاؤں کی رہنے والی ہیں۔
پولیس نے کوہستان واقعے کی ابتدائی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ 22 نومبرکو فیس بک پر 2 لڑکیوں کی تصاویر ایک لڑکے کی آئی ڈی سے وائرل ہوئیں، لڑکیوں کی تصاویر رحمت شاہ اور امان دیدار نے ایڈیٹ کرکے لگائیں۔
24 نومبر کو مقامی میڈیا نے خبر دی کہ دو لڑکیوں میں سے ایک کو اس کے والد اور چچا نے مقامی جرگے کے حکم پر قتل کیا۔
پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ گاؤں برشریال سے مقتولہ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے پٹن اسپتال لایا گیا، دوسری لڑکی کو ریسکیوکرکے والدین کے ہمراہ کولئی پالس لایا گیا۔ لڑکی نے سینئر سول جج کی عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا، لڑکی نے والدین کے ساتھ جانے کو کہاجس پر لڑکی کو 30 لاکھ روپے ضمانت کے عوض والد کے حوالے کیا گیا۔
پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقتولہ لڑکی کے والد مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے منگل (28 نومبر) کو اس کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ اصل ملزمان تک پہنچ چکا ہے۔ ملزمان نے دیدار امان اللہ کے نام سے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنایا۔
قتل ہونے والی لڑکی کے ساتھ تصویر میں دیدار نامی لڑکے نے بھی ایف آئی اے میں جعلی فیس بک اکاؤنٹ کی شکایت درج کرواتے ہوئے کہا کہ ملزمان نے اس کے نام سےجعلی فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور نجی کمپنی کا موبائل ڈیٹا استعمال کیا۔
ایف آئی آرمیں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان نے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنا کر فوٹو شاپ کرکے سوشل میڈیا پر تصویر اپ لوڈ کیں ۔
ایف آئی اے نے ملزمان کی نشاندہی کرکے تفصیلات پولیس کو فراہم کردی ہیں۔
پولیس کے مطابق دور افتادہ پہاڑی گاؤں برشریال میں مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کو کاروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے، جس کے بعد اب ایف آئی اے کی مدد طلب کرلی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق مقتولہ کے کچھ رشتہ دار بھی مشتبہ افراد میں شامل ہیں۔
۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مسعود خان نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے دونوں لڑکیوں کی تصاویر اپ لوڈ کی تھیں۔
پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109 (جرم کیلئے اُکسانا)، 302 (قتل عمد یا پہلے سے سوچے سمجھے قتل کی سزا) اور 311 (قصاص کی چھوٹ کے بعد سزا) کے تحت قتل کی ایف آئی آر درج کی۔
ڈی ایس پی مسعود خان کے مطابق لڑکی کے والد سمیت تمام جرگہ کے خلاف قتل مقدمہ درج کر لیا ہے اور مقتولہ کے والد ارسلان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جبکہ دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
تاہم، ڈی پی او کولئی پالس مختیار تنولی کہتے ہیں کہ کوئی علاقائی جرگہ نہیں ہوا، گھر والوں نے ہی فیصلہ کرکے لڑکی کو قتل کیا۔
مختیار تنولی کے مطابق قتل میں لڑکی کے والد، چچا اور اس کے دو بھائی شامل تھے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے نگراں وزیراعلیٰ سید ارشاد حسین شاہ نے پولیس کو ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
سید ارشاد حسین شاہ کے مطابق ، ’ ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ نوجوان خاتون کے مرد رشتہ داروں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس قتل میں ملوث ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جج کی جانب سے حفاظت کی جانچ کے بعد دوسری لڑکی کو اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا ہے’
نگراں وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ اس علاقے میں خواتین کی عوامی تصاویر کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
اس سے قبل مئی 2012 میں کوہستان کی وادی پلاس میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں پانچ لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا جن کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر سامنے آئی تھی۔ ویڈیو میں ایک لڑکا رقص کرتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ چار لڑکیاں تالیاں بجا رہی ہیں اور گا رہی ہیں۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب فوٹیج منظر عام پر آئی تو کچھ ہی دیر بعد ایک قبائلی جرگہ منعقد کیا گیا جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شرکاء کے ساتھ ساتھ ویڈیو بنانے والے لڑکے کو بھی قتل کر دیا جائے۔
ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ لڑکیوں کو ذبح کر کے قتل کردیا گیا ہے تاہم گذشتہ برسوں کے دوران افصل کوہستانی سمیت ان کے چاروں بھائی بھی قتل کیے جاچکے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال سیکڑوں خواتین غیرت کے نام پر قتل کا شکار و جاتی ہیں جس کا جواز ان کے اہلخانہ خاندان کی عزت کا دفاع بتاتے ہیں۔