ایران گیس پائپ لائن پر پابندیوں سے استثنیٰ کے لیے پاکستان نے امریکا کے ساتھ رابطوں کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنا شروع کردیے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق حکومت مبینہ طور پر امریکی حکام کے ساتھ رابطے کے لئے سفارتی ذرائع استعمال کر رہی ہے تاکہ اربوں روپے کے پاکستان ایران (آئی پی) گیس پائپ لائن منصوبے پر پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کیا جا سکے۔
نگراں وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے حال ہی میں اس منصوبے اور توانائی کے شعبے سے متعلق دیگر امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ایران کا دورہ کیا تھا، ملاقات کے دوران فریقین نے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گیس کی فروخت اور خریداری کے معاہدے (جی ایس پی اے) پر جون 2009 میں دستخط کیے گئے تھے اور یہ جون 2010 میں شرائط مکمل کرنے کے بعد نافذ العمل ہوا تھا۔
اس منصوبے کے تحت ایران پاکستان اور ایران کی سرحد (ایران سیکشن) تک 1150 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے اسسالویہ میں واقع ساحلی گیس پروسیسنگ پلانٹ سے گیس فراہم کرے گا۔
پائپ لائن کا پاکستان سیکشن ایران پاکستان سرحد سے پاکستان میں نواب شاہ تک بچھایا جانا ہے جو 781 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ ہے جب کہ ایران جی ایس پی اے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی فراہم کرنے کا پابند ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور ایران اس منصوبے کی بحالی میں مصروف ہیں، پاکستان کی تکنیکی ٹیم نے رواں سال کے جنوری میں ایران کا دورہ کیا تاکہ آگے کی راہ پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
ایرانیوفد نے اگست 2023 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں ممکنہ نفاذ کے آپشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس منصوبے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی وزارتی نگرانی کمیٹی تشکیل دی جو ٹھوس قابل عمل حل تلاش کرے گی۔
کمیٹی منصوبے کی اقتصادی قابلیت، مالی اعانت، سیاسی اور سفارتی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کرے گی۔
کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر پیٹرولیم ڈویژن اور وزارت خارجہ پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے امریکی حکام کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، جی ایس پی اے کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے منصوبوں پر عملدرآمد کے متبادل آپشنز بھی تلاش کیے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قانونی اور سفارتی طریقوں پر سرگرم عمل ہے جب کہ بین الاقوامی قانونی مشیر بھی امریکی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کرنے اور قابل عمل نفاذ کے آپشنز تیار کرنے میں مدد کے لئے مصروف ہیں۔