جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سینیٹ کو قیام پاکستان سے اب تک ڈالر کی قیمت میں اضافے کے کہانی سنادی۔
پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے اجلاس میں ڈالر کی قدر میں اضافہ زیر بحث آگیا۔
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ڈالر کی قدر پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت 3 روپے 31 پیسے تھی، مشرقی پاکستان کے سانحے کے وقت تک ڈالر کی قیمت 4 روپے 76 پیسے رہی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ڈالر کی قیمت کی کمی کے لیے طاقت کو استعمال کیا گیا، ڈالر کی اسمگلنگ کی بھی روک تھام کی گئی، زبردستی ڈالر کے ریٹ کو کنٹرول کیا گیا، کیا اس طرح ڈالر کی قیمت کو برقرار رکھا جا سکے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں کمی کے لیے ڈالر کی قیمت کو کم کرنا ہوگا، ڈالر کی قیمت مصنوعی طریقے کی بجائے درست طریقے سے کم کرنا ہوگی۔
دوسری جانب سینیٹ کو بتایا گیا کہ ملک میں گندم کی کوئی کمی نہیں، وافر مقدار میں زخیرہ موجود ہے، حکومتی سطح پر 67 لاکھ میٹرک ٹن جبکہ سرکاری اور نجی اسٹاک میں مجموعی طور پر 72 لاکھ 13 ہزار 884 میٹرک ٹن گندم موجود ہے اور ملک میں ایک ہزار 33 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی ہے۔
چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضی سو لنگی نے ایوان کو بتایا کہ سندھ میں 8 لاکھ میٹرک ٹن گندم ، خیبرپختونخوا میں 3 لاکھ میٹرک ٹن، بلوچستان کے پاس سرکاری اسٹاک میں 79 لاکھ 354 میٹرک ٹن اور نجی سطح پر سندھ کے پاس 93 ہزار 165 میٹرک ٹن گندم موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے پاس 14 ہزار 918 میٹرک ٹن ، بلوچستان کے نجی اسٹاک میں 4 ہزار 157 میٹرک ٹن گندم موجود ہے۔
سینیٹرثانیہ نشتر، رخسانہ زبیری اور دیگر نے ایوان کو توجہ دلائی کہ ایک پاکستانی نے کم سے کم کھاد اور پانی کے ساتھ گندم اگائی، کسانوں کی معاونت کی جائے۔
عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے زمینداروں کے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہیں، دنیا بھر میں زمینداروں کو سبسڈی دی جاتی ہے، بلوچستان کے لوگوں کا ایک زریعہ معاش زمینداری ہے اس کا بھی گلہ گھونٹا جارہا ہے۔
سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں میں ایسی گندم منگوائی گئی جو جانوروں کے کھانے کے لئے بھی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں گندم کی تقسیم کا طریقہ کار غلط ہے ملک میں کھاد بھی بلیک میں فروخت ہو رہی ہے حکومت ڈیلروں کو پابند کرے کہ وہ زمینداروں کا ریکارڈ رکھے۔
زرقا سہر ورفی نے کہا کہ ڈیلر کسانوں کے لیے سبسڈی سے استفادہ کر رہے ہیں پاکستان کی بلیک اکانومی وائٹ سے زیادہ ہے ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ ملک کی بجائے کرپٹ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے ایسے اقدامات ہونے چاہئیے جن سے بلیک اکانومی کی حوصلہ شکنی ہو۔
بعدازاں سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔