سپریم کورٹ نے سرکاری خط و کتابت اورنوٹیفکیشنز پر افسران کا نام لکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری کاغذات اور نوٹیفکیشن پر افسر کا عہدہ اور نام دونوں لکھے جائیں۔
سپریم کورٹ میں اسسٹنٹ کنزرویٹیو جنگلات کی بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھرتیوں کے عمل پر سخت اظہار برہمی کیا۔
سیکرٹری جنگلات، چیف سیکرٹری سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس فائزعیسیٰ نے سندھ ایڈووکیٹ جنرل آفس کے لاء افسران پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سندھ ایڈوکیٹ جنرل آفس میں 80 لاء افسران ہے۔ لاء افسران کی اتنی بڑی فوج، عدالت کوئی پیش نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ حسن اکبر کو اضافی لاء افسران کو ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم پریکٹس کرتے تھے تو دو تین لاء افسران ہوتے تھے، ان سب لاء افسران کوفارغ کریں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے لاء افسران ہر سوال پر پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں، سندھ میں قابل وکلاء موجود ہیں ان کو لاء افسران لگائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اشتہات میں اسٹنٹ کنزرویٹیو افسر کے لیے عمر کی حد 30 سال مانگی گئی، 15 سال کی رعایت دے کر 45 سال کے بڈھوں کو بھرتی کیا گیا، عمرکی رعایت مخصوص حالات میں مل سکتی ہے، تعلقات پر نوکریاں دینی ہیں تو جامعات بند کردیں۔
سپریم کورٹ نے سرکاری خط وکتابت اور نوٹیفکیشنز پر افسران کا نام لکھنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سرکاری کاغذات اور نوٹیفکیشن پر افسر کا عہدہ اور نام دونوں لکھے جائیں۔