افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن فوزیہ کوفی نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے بس میں ہو تو خواتین کا سانس لینا بھی محال کر دیں، اور افغان طالبان حکومت کے خواتین مخالف 80 حکم نامے جاری کئے۔
افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن فوزیہ کوفی نے افغان خواتین کی محرومیوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی اور 23 نومبر کو ماسکو اجلاس میں طالبان حکومت کے احکامات کی نشاندہی کی، جن کے ذریعے افغان خواتین کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا گیا گیا۔
فوزیہ کوفی نے بتایا کہ افغان طالبان نے 80 حکم نامے جاری کیے ہیں، جن کا مقصد معاشرے سے خواتین کو مٹا دینا ہے۔
سابق رکن افغان پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت نے افغان خواتین کی شناخت کو مسخ کر دیا ہے، ان کے بس میں ہو تو خواتین کا سانس لینا بھی محال کر دیں۔
دوسری شادی کرنے والی طلاق یافتہ افغان خواتین کو گرفتاری کا خدشہ، ’یا خدا، شیطان واپس آگیا‘
فوزیہ کوفی نے طالبان گروپ کے دورِ حکومت کے دوران افغان خواتین کی دو سالہ سول جدوجہد کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ طالبان گروپ کے خلاف کھڑا ہونا اس ملک کے حالات میں تبدیلی کا باعث بنے گا، خواتین کے حقوق کی بحالی اور طالبان حکومت کے خلاف ایک تحریک چلائی جانی چاہیئے، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی گروپ دباؤ کے ذریعے افغانستان پر تنہا حکومت نہیں کر سکتا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان حکومت میں ملک میں خواتین پرتشدد میں اضافہ ہوا، جولائی 2023 میں افغانستان میں عورتوں کے 60 ہزار سے زائد کاروباروں کو بند کردیا گیا، طالبان حکومت کے اقتدار کے بعد 2025 تک 51,000 زچگی اموات کا امکان ہو سکتا ہے۔
برطانوی اخبار ڈی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں خودکشی کرنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہے۔ اور وسلن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجموعی خود کشیوں میں خواتین کی شرح تقریباً 80 فیصد ہے۔ امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس نے بتایا کہ افغان حکومت میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں۔
عالمی برادری کے لئے سوال یہ ہے کہ افغان خواتین پر تشدد اور ان کے حقوق پر طالبان کا کریک ڈاؤن آخر کب تک جاری رہے گا۔