غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدہ کے بعد ایک فلسطینی قیدی خاتون اسراء الجعابیص کا نام گردش کرنے لگا ہے، جنہیں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین کی آئیکون سمجھا جاتا ہے۔
اسراء جعابیص کو 11 اکتوبر 2015 کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ الزعیم قصبے سے ملحقہ سڑک پر اپنی گاڑی میں جا رہی تھیں کہ اچانک ان کی گاڑی دھماکے سے تباہ ہوگئی۔
اسرائیل کی قابض افواج نے اسراء پر جھوٹا الزام لگایا کہ وہ کار میں دھماکہ خیز مواد لے جا رہی تھیں جو پھٹ گیا تھا، جبکہ اسراء کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مکان تبدیل کر نے کے بعد گھر کا سامان لے جا رہی تھیں جس میں ایک گیس سلینڈر بھی شامل تھا۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسراء کی گاڑی میں آگ لگنے سے ان کا پورا جسم بری طرح جھلس گیا، مگر صہیونی حکام نے اسے ایک عسکری کارروائی قرار دیتے ہوئے اسراء کو گیارہ سال قید کی سزا سنادی۔
جب انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ اپنے پیچھے اپنے اکلوتے بچے عمر کو چھوڑ گئی تھیں۔ اسراء کئی جیلوں میں رہ چکی ہیں اور فی الحال دیمون جیل میں قید ہیں۔
اسرائیلی وزارت انصاف کی جانب سے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ناموں میں قیدی الجعابیص کا نام بھی شامل ہے۔
اسرائیلی عدالتوں کی طرف سے مقدمہ کی طویل کارروائی کے بعد اسراء کو 11 سال قید اور 50,000 شیکل جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس فیصلے سے قبل ایک سال تک بحث جاری رہی اور یہ فیصلہ 7 اکتوبر 2016 کو جاری کیا گیا۔
اور اب ان کی رہائی کے امکانات روشن ہوچکے ہیں کیونکہ اسکائی نیوز کے مطابق حماس کی جانب سے اسرائیلی حکام کو دی گئی فہرست میں اسراء جعابیص کا نام بھی شامل ہے۔