برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے بھاگنے والے افغان پناہ گزین سے سینکڑوں ڈالر ایگزٹ فیس وصول کر رہا ہے۔
برطانوی اخبار ”دی گارڈئین“ میں شائع رپورٹ میں کہا گیا کہ مغربی سفارت کاروں اور اقوام متحدہ نے طالبان کے ظلم و ستم سے بھاگنے والے افغان پناہ گزینوں پر سینکڑوں ڈالر ایگزٹ فیس عائد کرنے کے پاکستانی فیصلے کو ”حیران کن اور مایوس کن“ قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے اس اقدام کا ہدف وہ پناہ گزین ہیں، جو آبادکاری اسکیمز کے تحت مغربی ممالک جانے کیلئے پاکستان چھوڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ایسے ہر پناہ گزین سے تقریباً 830 ڈالرز وصول کیے جارہے ہیں۔
اگست 2021 میں کابل کے سقوط کے بعد سے ہزاروں افغان باشندے بغیر درست دستاویزات کے یا میعاد ختم ہوچکے ویزوں کے ساتھ پاکستان میں موجود ہیں، اور مغربی ممالک میں اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے منتظر ہیں۔
ان میں سے بیشتر نے مغربی حکومتوں اور تنظیموں کے ساتھ کام کیا ہے اور وہ انسانی بنیادوں پر دوبارہ آباد ہونے کے اہل ہیں۔
امریکی حکومت اپنے ملک میں تقریباً 25,000 افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ 20,000 لوگوں کو دوبارہ آباد کرے گا۔
پاکستان میں پانچ سینئر مغربی سفارت کاروں نے گارڈئین کو بتایا کہ پاکستان میں عائد کی گئی ایگزٹ پرمٹ فیس کی بین الاقوامی سطح پر مثال نہیں ملتی اور یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے۔
ایک سفارت کار نے کہا کہ، ’میں جانتا ہوں پاکستان معاشی طور پر بہت مشکلات کا شکار ہے، لیکن پناہ گزینوں سے پیسہ کمانے کی کوشش کرنا واقعی ناخوشگوار ہے۔‘
سفارت کار نے مزید کہا، ’یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی دو ایجنسیوں یو این ایچ سی آر اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائگریشن نے بھی اٹھایا ہے‘۔
سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ دارالحکومتوں اور ہیڈکوارٹرز میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ مجھے شک ہے کہ ہر کسی نے اپنے (پاکستانی رابطوں) کو بھی پیغام پہنچایا ہے‘۔
ایک اور سفارت کار نے کہا کہ مغربی حکام کو وزارت داخلہ اور خارجہ کی بریفنگ میں اس اقدام کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ جب فیس کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تو حکام کو بتایا گیا کہ ابتدائی فیصلہ ہر فرد سے 10,000 ڈالر وصول کرنا تھا لیکن اسے کم کر کے 830 ڈالر کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت عجیب ہے اور مجھے ذاتی طور پر یہ بہت مایوس کن لگتا ہے۔ اگر پاکستان مغرب میں پناہ گزینوں کی آباد کاری کے عمل کو آسان بنانا چاہتا ہے تو اسے اس طرح کے مضحکہ خیز حالات سے اسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس ایگزٹ پرمٹ فیس کا کیا جواز ہے؟ سوائے پیسہ کمانے کے؟‘
ایک اور سفارت کار کا کہنا تھا کہ شرط ہے ایگزٹ پرمٹ کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ہونی چاہیے، جس تک بہت سے افغان مہاجرین کی رسائی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ اس معاملے کو مزید خراب بنا ہے کیونکہ مہاجرین میں سے اکثر کے پاس کریڈٹ کارڈ نہیں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں مہاجرین کی مدد کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تعاون پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان مدد کرے گا‘۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پالیسی میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ’یہ افراد پچھلے دو سالوں سے یہاں موجود ہیں اور وہ پناہ گزین نہیں ہیں بلکہ تارکین وطن ہیں جن کے پاس ویزے اور دستاویزات کی کمی ہے۔ لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ متعلقہ ممالک ویزا اور منظوری کے عمل کو تیز کریں گے تاکہ وہ جلد از جلد اپنی منزل کے لیے روانہ ہو سکیں‘۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لیے مزید معلومات کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ مغربی ممالک مزید تفصیلات کے بغیر ان کے نام دے رہے ہیں۔
لیکن ایک مغربی سفارت کار نے کہا، ’ہم پاکستانی حکومت کی طرف سے مانگی گئی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس قانونی پابندیاں ہیں کہ ہم کتنی معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔‘
یو این ایچ سی آر کے ترجمان بابر بلوچ نے کہا کہ ’یو این ایچ سی آر حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ آبادکاری پروگرام میں پناہ گزینوں کے لیے ایگزٹ پرمٹ فیس اور اوور سٹی ویزا فیس کے مسئلے کو حل کیا جا سکے‘۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سمجھتا ہے کہ یہ صورت حال ان لوگوں میں تشویش کا باعث بن سکتی ہے جو بھاگ کر پاکستان آئے تھے لیکن وہ ملک چھوڑ کر اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے خواہشمند تھے۔