سپریم کورٹ میں جمعرات کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جبکہ سپریم کورٹ نے 190 ملین پاؤنڈز سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی درخواست بھی خارج کردی۔
بحریہ ٹاؤن کیس کے دوران 190 ملین پاؤنڈز سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے شہری کی جانب سے دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب پہلے ہی اس کیس کی انکوائری کر رہا ہے، عدالت کی آبزرویشن نیب تحقیقات پر اثرانداز ہوسکتی ہے، نیب کو آزادانہ تحقیقات کرنے دیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ برطانیہ سے آئے 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کے نہیں عوام کے ہیں، عوام کا پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا تعلق صرف 460 ارب روپے کی ادائیگی سے ہے، سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ جانے اور عدالت جانے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست گزار نے معلومات دینی ہیں تو نیب کو دے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ برطانیہ نے ملک ریاض کا ویزا منسوخ کرکے داخلے پر پابندی عائد کی، برطانیہ نے 140 ملین پاؤنڈ اور نو بینک اکاؤنٹس منجمند کئے، منجمند کیے گئے اثاثوں میں پچاس ملین پاؤنڈ کی جائیداد بھی شامل تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رقم جمع کرانے والوں کو نوٹس کر چکے ہیں، درخواست گزار کا حق دعوی نہیں بنتا، درخواست میں سپریم کورٹ کو معزز عدالت لکھا ہوا ہے، یہ معزز عدالت نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جج جج ہوتا ہے جج صاحب نہیں ہوتا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ساتھی جج لگتا ہے مجھے چھیڑ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل بحریہ ٹاؤن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قانون کے شعبے سے وابستہ ہوئے 41 سال ہو گئے ہیں، کچھ عزت دیں۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان بٹ کو کہا کہ آپ ایسے ہی جاری رکھیں گے تو نتائج کیلئے بھی تیار رہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لے آؤٹ منظوری کا خط کب جاری کیا؟ وہ خط جاری نہیں کر رہے تھے تو آپ انہیں لکھ دیتے۔
جس پر وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ آپ 16 ہزار ایکڑ زمین سے متعلق دوبارہ آرڈر کردیں کہ اس کا جائزہ لیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اور کوئی آرڈر نہیں دیں گے، آج ہی کیس مکمل کریں گے، ہم رات تک بیٹھے ہیں۔
جس پر وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ میں مزید کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو کرسی دے دیتے ہیں، بیٹھ کر دلائل دے دیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی اسٹاف کو وکیل بحریہ ٹاؤن کو کرسی دینے کی ہدایت کی، لیکن وکیل سلمان بٹ نے کرسی کی آفر قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی کرسی نہیں چاہیے۔
جس پر چیف جسٹس بولے کہ ویسے مجھے بہت مایوسی ہو رہی ہے۔
اس کے بعد وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اختیار حاصل ہے وہ کسی بھی فیصلے کو واپس کرسکتی ہے، اور انہوں نے 2015 کے فیصلے کا حوالہ دیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ نظرثانی کے دائرہ اختیار میں ہوسکتا ہے۔
وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ کہیں کسی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہو تو عدالت خود فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔
وکیل سلمان بٹ نےتکرار کرتے ہوئے کہا کہ زیادتی ہورہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، پوری بات سن لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی شواہد نہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی۔تو وکیل سلمان بٹ بولے کہ میں نے دستاویز لگا رکھے ہیں کہ معاہدے کے مطابق زمین ہمیں نہیں ملی۔
چیف جسٹس نے وکیل بحریہ ٹاؤن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ باتوں کو بار بار مت دھرائیں، آپ کسی چیز سے رنجیدہ ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں، آپ سینئر وکیل ہیں پیچھے بیٹھے جونیئر وکلا نے بھی آپ سے سیکھنا ہے۔
جس پر وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں آپ جس فیصلے پر عملدرآمد کروا رہے ہیں وہ درست نہیں۔
تو چیف جسٹس بولے کہ ہم عملدرآمد نہیں کروا رہے آپ خود اس معاہدہ میں شامل ہوئے تھے۔
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ اس رضامندی سے ہوئے معاہدہ کو ختم کر دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس فیصلے کے ایک لفظ کو بھی نہیں بدل سکتے۔
اس کے بعد سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو دوران سماعت چیف جسٹس فائز عیسی اور بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
وکیل سلمان بٹ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آہستہ آواز میں بات کریں تو جواب دوں گا، مجھے یہ گنوارا نہیں کہ عدالت سمیت کوئی بھی مجھ پر چلائے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں چلانے پر مجبور کر رہے ہیں، ہم چلا نہیں رہے تحمل سے سوال پوچھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سینئر وکلاء کا یہ رویہ ہے تو وکالت کے شعبہ پر ترس آرہا ہے، جج پر انگلی اٹھانا آسان اور اپنی غلطی تسلیم کرنا سب سے مشکل کام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے کم زمین ملنے کا دعویٰ 2019 میں کیا تھا، درخواست کےساتھ جو شواہد دکھا رہے ہیں وہ 2022 کے ہیں، جو نقشہ آپ دکھا رہے ہیں اس پر کسی کے دستخط ہیں نہ ہی مہر۔
جمعرات کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سماعت شروع ہونے سے قبل چیف ایگزیکیوٹیو آفیسر (سی ای او) بحرہ ٹاؤن ملک ریاض حسین نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کو بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا موجودہ کیس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ درخواست گزار کے قانونی حقوق سے متعلق کوئی تعصب نہ برتا جائے، خاص طور پر ان حالات میں جب کہ قومی احتساب بیورو (نیب) مختلف الزامات پر ان کے ادارے کے خلاف انکوائری کر رہا ہے۔
وکیل سلمان بٹ کے توسط سے دائر کی گئی نئی درخواست میں یاد دلایا گیا کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے فائدے کے لیے بیرون ملک سے بھیجی گئی رقم کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے۔
آٹھ نومبر کو ہوئی گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جنگلات اور نجی زمین پر تجاوزات کے الزامات کا تعین کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے سروے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے 2019 کے اوائل میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں 16ہزار 896 ایکڑ اراضی کی خریداری کے لیے ڈویلپر کی جانب سے 460 ارب روپے ادا کرنے کی پیشکش کو قبول کیا تھا، لیکن کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ رواں سال 20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ 460 ارب روپے میں سے صرف 60.72 ارب روپے ادا کیے گئے اور اس ادائیگی میں سے بھی بحریہ ٹاؤن نے صرف 24.26 بلین روپے ادا کیے۔
دائر نئی درخواست میں ملک ریاض نے استدلال کیا کہ نیب اس کیس کے مختلف پہلوؤں سے بھجوائی گئی رقوم اور بحریہ ٹاؤن کے فائدے کے لیے اس کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں نیب کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اس کے سی ای او ملک ریاض کو پہلے ہی مختلف نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں، جواب میں وضاحت کی گئی کہ ان نوٹسز کا جواب قانون کے ساتھ ساتھ آئین کے تحت دیے گئے حقوق کے مطابق دیا جا رہا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے فائدے کے لیے بیرون ملک سے ارسال گئی رقوم کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں وضاحت کی گئی یہ مسئلہ موجودہ کارروائی کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سوموٹو دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی معاملے میں تفتیش کے عمل یا عدالتی فورمز کے اختیار کو مجروح نہ کیا جائے جب کہ ایسا کرنا متعلقہ فریقوں کے حقوق کو متعصب کرنے کے مترادف ہوگا۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ یہ اصول طے شدہ قوانین اور بنیادی حقوق میں شامل ہیں کہ ملزم کو قانون کا پسندیدہ بچہ اور جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے اور کسی شخص کو اپنے خلاف گواہ بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ میں کمشنر کراچی کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے جو زمین بتائی تھی وہ اس سے تین ہزار ایکڑ زائد پر قابض ہے۔
یہ رپورٹ 460 روپے کی وصولی کے معاہدے کے تناظر میں جمع کرائی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی کا 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کا معاہدہ ہوا تھا۔
کمشنر کراچی کی سربراہی میں 10 رکنی سروے ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن 19 ہزار 931 ایکڑ زمین پر قابض ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بحریہ ٹاؤن معاہدے سے تین ہزار 31 ایکڑ زائد زمین پر قابض ہے۔‘
دس رکنی سروے ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ ملیر میں 813 ایکڑ جبکہ جامشورو میں 2222 ایکڑ زائد زمین بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں ہے۔
سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے محفوظ کیے گئے جنگل کی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ رپورٹ سپارکو، سروے آف پاکستان، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے گذشتہ سماعت پر بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین کا سروے کرانے کا حکم دیا تھا۔