ضلع مردان کے علاقہ گدر سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ طالبعلم ابوبکر کی موت کا معمہ دو ماہ بعد حل ہوگیا ہے۔
رواں سال 6 ستمبر کو جب ابوبکر گھر سے باہر نکلا تو کچھ دیر بعد ماں نے دوائی لانے کے لیے فون کیا، لیکن کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی ابوبکر گھر نہیں لوٹا، جس کے باعث خاندان والوں کو تشویش لاحق ہوئی۔
اگلے روز صبح کے وقت جب ابوبکر کے والد نے بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ تھانہ جبر میں درج کرائی تو دوپہر کو والد کو بیٹے کی نعش کی اطلاع ملی۔
ابوبکر کی نعش کو انذرگئی ہسپتال کاٹلنگ منتقل کیا گیا جہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پوسٹ مارٹم نہ ہو سکا، پھر لاش کو مردان میڈیکل کمپلیکس/باچا خان میڈیکل کالج منتقل کرنا پڑا۔
باچا خان میڈیکل کالج کی 20 روز بعد آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق منشیات کے زیادہ استعمال سے ابوبکر کی موت واقعہ ہوئی اور رپورٹ کے روشنی میں پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت قتل بالسبب کا مقدمہ درج کرلیا۔
والد محمد ہمایوں نے پوسٹ رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مقامی جوڈیشل مجسٹریٹ کو دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کی درخواست دی اور یوں عدالتی احکامات پر 14 نومبر کو قبر کشائی کرکے دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
محمد ہمایوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن ابوبکر شاہ فیصل نامی منشیات فروش کے ساتھ گیا تھا اور وہی قاتل ہے۔
نئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ابوبکر کی موت نشے سے نہیں بلکہ تشدد کی وجہ سے ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق ابوبکر کے سر پر وار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ہاتھ بھی فریکچر تھا۔
نئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی روشنی میں ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر نے دفعہ 322 کو 302 میں تبدیل کرنے کی رائے دی جس پر پولیس نے مقدمہ 302 میں تبدیل کردیا ہے۔
تھانہ جبر کے ایس ایچ او ہمایوں نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ابوبکر اور شاہ فیصل دونوں منشیات کے عادی تھے، جبکہ ابوبکر آئس تک استعمال کررہا تھا۔ جس پر والد نے پولیس کو درخواستیں بھی دی ہیں۔
ایس ایچ او ہمایوں کا کہنا تھا کہ والد کی جانب سے مقدمے میں نامزد کرنے پر مرکزی ملزم شاہ فیصل سمیت دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو جیل میں ہیں، تاہم قاتل کون ہیں یہ مقدمے کے ٹرائل سے عدالت میں ثابت ہوگا۔
ایس ایچ او ہمایوں کا کہنا تھا کہ پہلی پوسٹ مارٹم میں منشیات اور دوسرے میں تشدد سامنے آیا ہے جس پر والد متعلقہ ڈاکٹر کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل نعمان محب کاکاخیل کا کہنا ہے فوجداری مقدمات میں اکثر ایسے مسائل سامنے آتے ہیں کہ درکار طریقہ کار کے تحت پوسٹ مارٹم مکمل نہیں ہوتا اور اسی کیس کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کوتاہی برتی گئی، اسی لیے متعلقہ ڈاکٹر کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، جس کے تحت مقدمہ درج کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کو ملازمت سے بھی فارغ کیا جاسکتا ہے۔
سنیئر قانون دان مختیار احمد کا بھی مؤقف ہے کہ دو مختلف رپورٹس سے پیشہ وارانہ غفلت ظاہر ہورہی ہے، اس لئے ذمہ داروں کا تعین انتہائی ضروری ہے، جس کے لیے انکوائری کرکے ملوث اہلکاروں اور افسران کو سخت سزا دینی ہوگی۔