Aaj Logo

شائع 23 نومبر 2023 07:18pm

الیکشن کمیشن اور صدر 8 فروری کی تاریخ دے کر آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ٹھہرے، جسٹس اطہر من اللہ

عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا، قوامی اسمبلی تحلیل کے نوے روز میں انتخابات نا کرنے کی آئینی اور عوامی حقوق کی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ میں عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا اضافی نوٹ جاری کردیا، جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ 41 صفحات پر مشتمل ہے۔

اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات 7 نومبر تک ہونا آئینی تقاضہ ہے، انتخابات کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 شق 5 کے تحت صدر مملکت کا اختیار ہے، یہ یقینی بنانا صدر مملکت کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان کی عوام اپنے ووٹ کے حق سے 90 دن سے زیادہ محروم نہ رہیں، الیکشن کمیشن اور صدر نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات نہ کرنےکی آئینی اور عوامی حقوق کی خلاف ورزی اتنی سنگین ہےکہ اس کا کوئی علاج نہیں، صدر یا گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا، الیکشن کمیشن کو آئین بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، صدر مملکت اور گورنر کو اپنے منصب کے مطابق نیوٹرل رہنا چاہیے، الیکشن کمیشن صدر یا گورنر کے ایکشن نہ لینے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ انتخابات میں 90 دن سے اوپر ایک بھی دن کی تاخیر سنگین آئینی خلاف ورزی ہے، آئینی خلاف ورزی اب ہوچکی اور اسےمزید ہونے سے روکا بھی نہیں جاسکتا، انتخابات کی تاریخ دینے میں صدر اور الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، صدر انتخابات کی تاریخ نہ دے کر اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ انتخابات سے عوام کو دور نہیں رکھا جاسکتا، وقت پر انتخابات نہ کرانا عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے، انتخابات نہ کرا کر عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہوچکی، 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ووٹ دینے سے محروم رکھا گیا، انتخابات میں تاخیر روکنے کے لیے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کرنےکی ضرورت ہے۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 224 اے کی خلاف ورزی کا تدارک ممکن ہے نہ ہی یہ ناقابل احتساب ہے، 90 دن میں انتخابات نہ ہونے کے بعد ہر گزرنے والا دن آئینی خلاف ورزی میں شمار ہوگا۔

اضافی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ نے یہ بھی کہا کہ جبری گمشدگیاں کرنا ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی بن چکی ہے، شخصی آزادی اور نجی گھروں میں تجاوز کی کارروائیاں معمول بن گئیں، صحافیوں،سیاسی ورکرز کے خلاف کارروائیاں معمول بن گئیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ملک کی آئینی تاریخ بھی قابل تعریف نہیں رہی، سپریم کورٹ نے مولوی تمیزالدین کیس میں نظریہ ضرورت اپنایا، جج اور نہ ہی مسلح افواج کا کوئی افسر آئین سے بالا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے مزید کہا کہ کئی جمہوری ریاستوں میں نگراں حکومتوں کا کوئی تصور نہیں، نگراں حکومتوں کے قیام کا مقصد صرف روزمرہ امورکی انجام دہی ہے، نگران حکومتوں کا مقصد نیوٹرل رہ کر شفاف انتخابات کے لیے سازگار ماحول بنانا ہے، انتخابات میں90 دن سے زیادہ کی تاخیر آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے، انتخابات کے انعقاد میں90 دن سے زیادہ تاخیر آئین معطل کرنے کے مترادف ہے۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ انتخابات میں تاخیر کے آئینی حق کی خلاف ورزی کا مداوا آرٹیکل 254 سے بھی ممکن نہیں، آئین کے تحت ملک منتخب نمائندے ہی چلاسکتے ہیں، آئین میں آئینی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کا حل موجود ہے، انتخابات میں تاخیر پرکوئی شہری عدالت سے رجوع کرے تو اس کی داد رسی ہونی چاہیئے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن تاخیرشدہ انتخابات کو شفاف اور منصفانہ کرائے، الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ تاخیرشدہ انتخابات میں کسی کو شکایت نہ ہو، الیکشن کمیشن انتخابات شفاف،منصفانہ نہ کرائے تو آئینی ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکام ہوگا۔

Read Comments