بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ کپ فائنل میں شکست کے بعد ڈریسنگ روم میں ہندوستانی کھلاڑیوں سے ملاقات کی، لیکن ان کی اس ملاقات نے بایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔
ہندوستانی ٹیم کی ہار کے بعد نریندرا مودی ڈریسنگ روم جا پہنچے اور کرکٹرز کو تسلیاں دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں جو کچھ حاصل کیا اس پر فخر کریں۔
مودی کے ڈریسن روم کے دورے کی ایک منٹ 26 سیکنڈ کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جاری کی مودی نے ویرات کوہلی اور کپتان روہت شرما کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ ’آپ لوگ دس دس گیم جیت کر آئے ہو۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ مسکرایے بھائی، دیش آپ لوگوں کو دیکھ رہا ہے۔ میں نے سوچا مل لوں آپ سب سے۔‘
اس دوران وہ کوہلی اور روہت شرما کی پیٹھ بھی تھپتھپاتے ہیں اور ان کے ہاتھ پکڑ کر ان کے درمیان کھڑے نظر آتے ہیں۔
اس کے بعد مودی انڈین ہیڈ کوچ راہل ڈریوڈ سے پوچھتے ہیں ’کیا راہل۔۔۔ کیسے ہیں؟ آپ لوگوں نے محنت بہت کی ہے لیکن۔۔۔‘ اور ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور کندھے پر تھپکی دیتے ہیں۔
پھر وہ اچانک آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ سے مخاطب ہوتے کہتے ہیں کہ ’کیا بابو۔۔‘، پھر ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور پشت پر تھپکی دیتے ہیں اور گجراتی زبان میں ان سے کچھ کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ جڈیجہ کی اہلیہ گجرات سے بی جے پی کی رکن اسمبلی ہیں۔
پھر وہ بائیں جانب کھڑے شبھمن گل سے ہاتھ ملاتے ہیں لیکن ان سے کوئی بات نہیں کرتے اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے بعد وہ فاسٹ بولر محمد شامی کو ”شمی“ کہہ کر پکارتے ہیں اور انہیں گلے لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تم نے بہت اچھا کیا ہے اس بار۔‘
پھر وہ فاسٹ بولر بمراہ سے ملتے ہیں اور ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ’تم تو گجراتی بولتے ہو گے‘ تو بمراہ جواب دیتے ہیں کہ ’ہاں تھوڑی تھوڑی۔‘
پھر کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے ان سے گجراتی میں کچھ کہتے ہیں۔
اس کے بعد مودی شریئش ایئر، سوریہ کمار یادو، کلدیپ یادو اور کے ایل راہل سے ہاتھ ملاتے ہیں۔
اس کے بعد وہ مڑ کر سارے کھلاڑیوں کے درمیان آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ایسا ہوتا رہتا ہے اور ساتھیوں کے حوصلے بلند کرتے رہیے اور آپ لوگ کبھی فارغ ہو کر دلی آئيں گے تو بیٹھیں گا آپ کے ساتھ۔ میری طرف سے آپ سب کو دعوت ہے۔‘
نریندرا مودی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آٹے ہی تنقید کا نشانہ بن گئی، اور انہیں سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد نے نشانہ بنایا۔
ہندوستان کے سابق کھلاڑی اور 1983 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے رکن کیرتی آزاد نے کہا کہ وزیر اعظم کو کیمروں کے بغیر ڈریسنگ روم میں جانا چاہئے تھا۔
ترنمول کانگریس سے وابستہ کیرتی نے انڈیا ٹوڈے پر ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ’کسی کو ڈریسنگ روم میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ کرکٹرز کے لیے پرائیوٹ جگہ ہے۔ ماحول ٹھیک نہیں تھا کیونکہ فائنل ہارنے کے بعد کھلاڑی پریشانی کا شکار تھے۔ آئی سی سی بھی کسی کو ڈریسنگ روم میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ڈریسنگ روم سے منسلک ایک وی آئی پی لاؤنج ہے۔ اگر وہ چاہتے تو انہیں وہاں کھلاڑیوں سے ملنا چاہیے تھا‘۔
کیرتی آزاد نے ایک ٹویٹ میں مزید کہا کہ ’ڈریسنگ روم کسی بھی ٹیم کا مقدس مقام ہوتا ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کسی کو بھی ڈریسنگ روم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی‘۔
بھارتی وزیر اعظم پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کیا پی ایم مودی اپنے حامیوں کو خود بیڈ روم، ڈریسنگ روم یا ٹوائلٹ میں آنے اور تسلی دینے یا مبارکباد دینے کی اجازت دیں گے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کھلاڑی سیاست دانوں سے کہیں زیادہ نظم و ضبط کے حامل ہوتے ہیں‘۔
ایک اور رکن کانگریس جے رام رمیش نے لکھا کہ ’ ”ماسٹر آف ڈرامہ اِن انڈیا“ کی جانب سے خود ساختہ، کوریوگراف کی گئی تسلی کی ویڈیو نے کل جاری کی گئی تصاویر کے پیچھے کی بے حسی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ فیس سیونگ مشق نے بیک فائر کیا ہے۔ ہندوستان کے نوجوان ان مایوس کن حرکات سے بیوقوف نہیں بنیں گے’۔
ایک اور صحافی اور کانگیرس رکن سنجے جھا نے لکھا کہ ’ ڈریسنگ روم کو اکیلا چھوڑ دیں۔ سیاسی فائدے کے لیے کرکٹرز کے دکھ اور غم سے فائدہ اٹھانا ظلم ہے۔ یہ بے ہودہ ہے’۔
راجیہ سبھا کی رکن اور شیو سینا (یو بی ٹی) کی رہنما پرینکا چترویدی نے اپنے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جا کر کہا، ’ہندوستانی کرکٹرز واضح طور پر بے چین نظر آتے ہیں، انہیں نقصان سے نمٹنا پڑتا ہے اور پھر وزیر اعظم کی ٹیم کے ڈریسنگ روم کے اندر ان پر کیمرے لگا دیے جاتے ہیں۔ ’پیپ ٹاک‘ ریکارڈ کرنے کے لیے۔ ہاں آپ اس ٹویٹ کو جتنا چاہیں ٹرول کر سکتے ہیں۔‘