سپریم کورٹ میں سابق صدر جنرل (ر) مرحوم پرویز مشرف کی اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لاہورہائیکورٹ نے جوریلیف دیا وہ تو مانگا ہی نہیں گیا تھا، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ درست بھی ہو تو دائرہ اختیار نہ ہونے پر برقرار نہیں رہ سکتا، لاہور ہائیکورٹ نے دائرہ اختیار کیسے استعمال کیا وہ حیران کن ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے پرویز مشرف سے متعلق خصوصی عدالت کے فیصلے سے متعلق کی سماعت کی۔
وکیل حامد خان نے روسٹرم پر آکر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو کارروائی آگے بڑھانے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزم سرنڈر نہ کرے تو بھی کارروائی چلائی جا سکتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کے نوٹس میں بھی لایا گیا تھا، لاہورہائیکورٹ میں مشرف کی درخواست اٹارنی نذیراحمد نے دائرکی، اٹارنی کی درخواست کے ساتھ بیان حلفی پرویزمشرف کا ہی لگایا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے پوچھا کہ کیا پرویز مشرف نے بیان حلفی پاکستان میں ہوتے ہوئے دیا تھا؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ تاثر ملتا ہے کہ پرویز مشرف اوتھ کمشنر کے سامنے لاہور میں پیش ہوئے تھے، درحقیقت پرویز مشرف بیان حلفی کے وقت ملک میں ہی نہیں تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اوتھ کمشنر میاں خالد محمود جوئیہ تھے۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف 18 مارچ 2016 کو بیرون ملک گئے تھے دوسری جانب جس اٹارنی کا ذکر ہو رہا ہے وہ نذیر احمد انتقال کر چکے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا پرویزمشرف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے تھے؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے مشرف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی، اس ضمن میں سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے سنگین غداری کیس میں جو ریلیف دیا وہ تو درخواست میں مانگا ہی نہیں گیا تھا، جس طرح کے اختیارات 187 کے تحت سپریم کورٹ کو حاصل ہیں کیا وہ ہائیکورٹ کے پاس بھی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ درست بھی ہو تو دائرہ اختیار نہ ہونے پر برقرار نہیں رہ سکتا، لاہور ہائیکورٹ نے دائرہ اختیار کیسے استعمال کیا وہ حیران کن ہے، خصوصی عدالت میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج بھی موجود تھے، لاہور ہائیکورٹ نے ہائیکورٹ کے ہی 3 ججز کے خلاف رٹ کیسے جاری کردی؟۔
درخواست گزار وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو کارروائی آگے بڑھانے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا ملزم سرنڈر نہ کرے تو بھی کارروائی چلائی جا سکتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کے نوٹس میں بھی لایا گیا تھا ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار کن بنیادوں پر استعمال کیا، جس پر حامد خان نے کہا کہ کوئی وجوہات واضح نہیں کی گئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا وفاق نے بھی دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا،جس پر حامد خان کا جواب تھا کہ کسی نے کچھ بھی نہیں کہا، سب ایک پیج پر تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ عدالتی معاون نے بھی کچھ نہیں کہا کیا وہ بھی ایک پیج پر تھے، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ عدالتی معاون بھی ایک پیج پر تھے۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سیم پیج کیا کوئی آئینی دستاویز ہے؟ اس سوال پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فریقین اگر چاہیں تو تحریری معروضات جمع کرا سکتے ہیں۔
بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت منگل 28 نومبر کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔