چین اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب اور مسلم اکثریتی ممالک نے غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے کیلئے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور اس معاملے پر ’فوری طور پر کام شروع کیا جائے‘۔
بیجنگ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے قیام کے لیے کوششیں تیز کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں عرب ممالک کے وزراء خارجہ نے چین کا دورہ کیا۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے سعودی عرب، اردن، مصر، فلسطینی نیشنل اتھارٹی اور انڈونیشیا کے ہم منصبوں کے ساتھ ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہ کا چینی دارالحکومت کے دو روزہ دورے پر خیرمقدم کیا۔
وانگ نے بات چیت سے قبل افتتاحی کلمات میں دورہ کرنے والے رہنماؤں کو بتایا کہ ’عالمی برادری کو اس سانحے کو پھیلنے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کرتے ہوئے فوری طور پر کام کرنا چاہیے۔ چین اس تنازعہ میں انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے‘، انہوں نے چین کی جانب سے فوری جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ بھی کیا۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کے ساتھ دورے پر آنے والے وزراء نے تنازعے کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے مطالبات کا اظہار کیا اور کہا ’پیغام واضح ہے، جنگ کو فوری طور پر روکنا چاہیے، ہمیں فوری طور پر جنگ بندی کی طرف جانا چاہیے، اور امدادی سامان اور امداد فوری طور پر پہنچنی چاہیے۔‘
وفد میں شامل ممالک نے چین اور ”تمام ممالک“ کے ساتھ تعاون کرنے کی امید ظاہر کی جو ’ذمہ دار ہیں اور صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہیں۔‘
بیجنگ میں یہ اجتماع ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ، اسرائیل اور حماس کے درمیان کئی ہفتوں کے مذاکرات کے بعد، خلیجی ریاست قطر کی ثالثی میں حماس کے ہاتھوں کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور لڑائی میں کئی دنوں کا وقفہ یقینی بنانے کے لیے ممکنہ معاہدہ متوقع ہے۔
خیال رہے کہ بیجنگ کا واشنگٹن سے ہمیشہ ہی اختلاف رہا ہے جو کہ اسرائیل کا اتحادی ہے اور طویل عرصے سے خطے میں ایک بڑا پاور بروکر ہے۔
چین نے ہمیشہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ واشنگٹن جنگ بندی کے خلاف ہے۔
بیجنگ نے اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں پر بھی تنقید کی ہے اور اپنے بیانات میں حماس کی مذمت یا اس گروپ کا نام لینے سے گریز کیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک ریڈ آؤٹ میں وانگ نے بات چیت کے دوران عرب ممالک کے وفد کو بتایا کہ ’اسرائیل کو چاہیے کہ وہ غزہ کے لوگوں پر اپنی اجتماعی سزا کو روکے، اور جلد از جلد ایک انسانی راہداری کھولے تاکہ بڑے پیمانے پر انسانی بحران کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔‘
وانگ نے وفد کو بتایا کہ ’ہم نے ہمیشہ عرب اور مسلم ممالک کے جائز حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے دفاع کیا ہے، اور ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق اور مفادات کی بحالی کی کوششوں کی بھرپور حمایت کی ہے‘۔
وانگ نے مزید کہا کہ بیجنگ ’عرب اور مسلم ممالک کا اچھا دوست اور بھائی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق اور مفادات کی بحالی کے لیے مضبوطی سے حمایت کی ہے۔‘
وانگ نے کہا کہ چین ’غزہ میں لڑائی کو جلد از جلد روکنے، انسانی بحران کے خاتمے اور مسئلہ فلسطین کے جلد، جامع، منصفانہ اور دیرپا تصفیے کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا۔‘
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اجلاس کے دوران کہا کہ ’ہمیں اب بھی خطرناک پیش رفت اور ایک سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے جس کے لیے موثر بین الاقوامی کارروائی کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جنگ فوری طور پر بند ہو جانی چاہیے اور ہمیں فوری طور پر امداد اور خوراک کے فوری داخلے کی طرف بڑھنا چاہیے’۔
شہزادہ فیصل نے مزید کہا کہ بحران کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں چین اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کے منتظر ہیں۔
چین تنازعات کا حل تلاش کرنے میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کیونکہ وہ ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر اپنی پوزیشن کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
بیجنگ نے گزشتہ ماہ خطے میں کئی ممالک کے دورے کے لیے ایک امن مندوب بھیجا تھا اور اس نے سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں فوری جنگ بندی کے لیے ایک مضبوط آواز کے طور پر کام کیا ہے۔
19 اکتوبر 2023 کو مشرق وسطیٰ کے معاملے پر چینی حکومت کے خصوصی ایلچی ژائی جون نے دوحہ میں قطری وزارت خارجہ کے وزیر مملکت محمد بن عبدالعزیز الخلیفی سے ملاقات کی۔ دونوں فریقین نے فلسطین اسرائیل کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے تنازعے پر اپنی پہلی قرارداد منظور کی تھی، جس میں حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی اور شہریوں کی حفاظت کے لیے پورے علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بیجنگ میں اسرائیلی سفیر ایرٹ بن ابا نے پیر کو ایک پریس بریفنگ میں غیر ملکی صحافیوں کو کہا کہ انہیں امید ہے ’ عرب و مسلم ممالک کے اس دورے سے جنگ بندی کے بارے میں کوئی بیان نہیں آئے گا، ابھی یہ وقت نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو امید ہے کہ وفد حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے بارے میں بات کرے گا ’اور پیشگی شرائط کے بغیر ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملوث فریقین کو مصر کے ’انسانی امداد کی سہولت فراہم کرنے میں کردار‘ کے بارے میں مل کر بات کرنی چاہیے۔