بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اتوار کو ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت ”جماعت اسلامی (بنگلہ دیش)“ کی طرف سے 2013 کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل مسترد کر دی ہے، جس میں سیکولرازم کی آئینی شق کی خلاف ورزی کرنے پر اسے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس عبید الحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اپیلٹ ڈویژن کے پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی وکیل ”ذاتی مسائل“ کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔
دس سال قبل ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کرادی تھی، اور جماعت اسلامی کو انتخابات میں حصہ لینے یا پارٹی نشان کے استعمال سے روک دیا گیا تھا۔ لیکن اس کی سیاسی شرکت پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔
بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے لیے 7 جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے جس کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جھماعت اسلامی پر پابندی کا حکم پاکستان کے خلاف ملک کی 1971 کی آزادی کی جنگ کی مخالفت کرنے پر پارٹی پر پابندی لگانے کے مطالبات کے درمیان آیا تھا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے، 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنماؤں کو ملک کی آزادی کی جنگ کے دوران نسل کشی اور جنگی جرائم کی کارروائیوں میں ان کے کردار پر مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ کچھ کو 2013 سے پھانسی دی گئی یا عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔
جماعت اسلامی کے خلاف کھڑی ایک وکیل تانیہ امیر نے کہا کہ ’ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر وہ (جماعت اسلامی) کسی بھی جلسے، میٹنگ یا اجتماع کی کوشش کرتے ہیں یا کسی ہائی کمیشن، سفارت خانے، غیر ملکی ایجنسی یا ریاست کے لیے اپنی جماعت کو قانونی قرار دیتے ہیں، تو ہم ان کے خلاف توہین عدالت کا نیا الزام لگانے کے لیے آزاد ہیں‘۔
لیکن پارٹی کے وکیل مطیع الرحمان اکندہ نے کہا کہ پارٹی سیاسی طور پر متحرک رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت نے اپنی رائے دی کہ آیا رجسٹریشن (الیکشن کمیشن کے ساتھ) برقرار رہے گی ، آئینی طور پر سیاست پر پابندی لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
بنگلہ دیش میں طویل عرصے سے سیکولر قوتوں اور دیگر کی طرف سے اسلام پسند جماعت پر پابندی لگانے کے لیے متعدد مطالبات کیے جا رہے ہیں، لیکن حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔
امریکہ بھی اسے ایک اعتدال پسند اسلام پسند جماعت سمجھتا ہے۔
ہائی کورٹ کے اتوار کے فیصلے کے باوجود، یہ ایک بار پھر غیر واضح رہا کہ آیا بنگلہ دیش جماعت اسلامی اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے یا نہیں۔
عام طور پر، وزارت داخلہ وہ ادارہ ہے جو ریاست مخالف سمجھے جانے والے بنیاد پرست گروہوں پر پابندی لگاتا ہے۔
جماعت اسلامی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی قیادت میں حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی کلیدی شراکت دار رہی ہے، جو کئی دہائیوں سے موجودہ سربراہ حکومت حسینہ کی حریف رہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور خالدہ ضیاء نے 2001 سے 2006 میں حکومت میں حصہ لیا۔
جنوری میں، حسینہ مسلسل چوتھی مدت کے لیے اقتدار میں واپس آنے کی کوشش کریں گی جبکہ ضیا کی پارٹی نے انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے۔
بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ وہ حسینہ واجد کے تحت ہونے والے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کریں گے۔