پاکستان کے پاس اس وقت 12 ارب 53 کروڑ ڈالرز کا زرمبادلہ موجود ہے، اس میں سے اسٹیٹ بینک کے پاس 7 ارب 39 کروڑ ڈالرز اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 13 کروڑ ڈالراز موجود ہیں، ملک کو اس وقت ڈالرز کی شدید ضرور ہے، ایک ایک ڈالر جوڑ کر پاکستان کی میعیشت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسے وقت میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان سے باہر مقیم 164 ریٹائرڈ سرکاری افسران ایسے ہیں جنہیں غیرملکی کرنسی میں پینشن دی جاتی ہے۔
سماجی کارکن نعیم صادق نے ”رائٹ ٹو ایکسس ٹو انفارمیشن“ کے تحت یہ خبر نکلوائی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”دس“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نعیم صادق نے بتایا کہ ان کا تعلق ”جسٹس فار دی وائس لیس“ نامی گروپ سے ہے، جو پاکستان کے ان طبقوں کے حقوق کے بارے میں آواز اٹھاتا ہے جو پسے ہوئے ہیں جیسے کہ سینیٹیشن ورکرز یا سیکیورٹی گارڈز جنہیں کم از کم اجرت سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ ہم نے یہ دیکھی کہ پاکستان میں اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ پاکستان کے جو سارے زخائر اور دولت ہے ایک بڑی سکشن مشین کی طرح انہیں چوس لیتا ہے، پھر ہم نے دیکھا کہ ان کی تنخواہیں کیا ہیں، ان کی پینشنز کیا ہیں، اور کیسے ان کی ایک ایک انکریمنٹ دو دو لاکھ کی ہے، جبکہ دوسری طرف غریبوں کو 25 ہزار کے بجائے 15 ہزار کیوں ملتے ہیں۔
نعیم صادق نے بتایا کہ ’ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ہیں جو کہ سرکاری ریٹائڑد افسران ہیں، آفیشلز ہیں مختلف ڈیپارٹمنٹس سے ان کا تعلق ہے، کوئی پانچ چھ ڈیپارٹمنٹس ہیں جن سے ان کا تعلق ہے، وہ باہر رہتے ہیں اور فارن ایکسچینج میں انہیں پینشنز دی جاتی ہیں‘۔
نعیم صادق نے ان ڈیپارٹمنٹس کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ’سول سروسز ہیں، ملٹریز ہیں، ریلویز ہے، واپڈا ہے، تقریباً سب ہی، آپ بیوروکریٹس سمجھ لیں‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات سنی سنائی تھی، ہم نے اس کی حقیقت کو جاننا چاہا کہ پاکستان جسے فارن ایکسچینج کی اتنی تنگی ہے تو کیا واقعی ہم اپنی فارن ایکسچینج ان کو بھجوا رہے ہیں؟ ہم نے سارے محکموں سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ کہا کہ آپ فارن آفس کے پاس جائیے، ان سے جواب ملے گا۔
انہوں نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ تو ہم فارن آفس گئے، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جواب نہیں ہے، آپ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریوینوز کے پاس جائیے، ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ واپس فارن آفس کے پاس جائیے، جب دو چار مرتبہ یوں آگے پیچھے ہوتا رہا تو یہ کیس پاکستان انفارمیشن کمیشن کے پاس گیا، مگر افسوس کے ساتھ انفارمیشن کمیشن نے اس کیس کو بند کرنا مناسب سمجھا، جو کہ ہمارے لیے افسوس ناک بات تھی کیونکہ ان کا کام انفارمیشن لے کر دینا ہوتا ہے روکنا نہیں۔
نعیم صادق کے مطابق پھر ان کے ایک دوست نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی جس کے بعد نوٹسز گئے تو فارن آفس نے فوراً تفصیلی معلومات فراہم کردیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس انفارمیشن سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے مختلف محکموں کے 164 افسران باہر بیرون ممالک میں رہتے ہیں اور ان کو پینشن دینے کیلئے پاکستانی روپے میں ڈالرز خرید کر باہر بھیجے جاتے ہیں۔
نعیم صادق کے مطابق اس پیشن کے ٹوٹل اخراجات 20 کروڑ روپے سالانہ ہے، پھر مختلف ایمبیسیز کے زریعے جہاں بھی وہ لوگ رہتے ہیں انہیں بھیج دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 35 لاکھ پینشنرز ہیں، ان میں سے صرف 164 کو یہ سہولت حاصل ہے، تو یہ قانون کا یکساں نفاذ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دو مقاصد ہیں ، ایک تو یہ کہ ہم حکومت کو کہیں کہ اس کرنسی کی تبدیلی اور پھر اسے باہر بھیجنے کو بند کردیں اور ہر شہری کے ساتھ برابر کا سلوک کریں اور برابری سے سب کو پینشن دیں، ہم یہ بھی چاہ رہے ہیں پاکستان میں کسی کو دو لاکھ روپے سے زیادہ پینشن نہیں ملنی چاہیے اور کسی کو 20 ہزار سے کم نہیں ملنی چاہیے۔
نعیم صادق نے بتایا کہ ہمارا اس وقت 654 ارب روپے پینشن کا بجٹ ہے، ہمیں کیا حق ہے کہ کئی کئی لوگوں کو 10 10 لاکھ روپے پینشن دیں، کتنی جوڈیشری ہے جس کی 10 لاکھ روپے پینشن ہے، لاکھوں ایسے ہیں جن کی پینشن ہی نہیں ہے اور جن تھوڑے سے لوگوں کی ہے جن کی ای او بی آئی ہے، ان کی دس ہزار روپے ہے۔