وفاقی حکومت، وزارت دفاع، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے خصوصی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا ہے اور فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی ہے، جب کہ مؤقف پیش کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں۔
سندھ حکومت کے بعد وفاقی حکومت وزارت دفاع اور بلوچستان حکومت نے بھی خصوصی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
وفاقی حکومت نے سویلینزکےخصوصی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی ہے، جس میں عدالت عظمیٰ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل کے توسط سے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اپیل پر فیصلے تک پانچ رکنی لارجر بنچ کے فیصلے پر حکم امتناع دیا جائے۔
وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ ملٹری کورٹس کیس میں بنایا گیا بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت نہیں تھا، پانچ رکنی لارجر بنچ کا قیام قانون کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ بھی غیر موثر ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے دائر درخواست میں ملزمان کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں نہ کرنے کو فیصلہ کالعدم قرار دینے اور وزارت دفاع کی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی دفعات بھی بحال کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
وزارت دفاع نے استدعا کی ہے کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59(4) بھی بحال کی جائیں اور اپیلوں پر حتمی فیصلے تک خصوصی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کیخلاف حکم امتناع جاری کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
دوسری جانب بلوچستان حکومت نے بھی خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
بلوچستان حکومت نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائیں، اور اپیلوں پر فیصلےتک فیصلہ معطل کیا جائے۔
درخواست میں بلوچستان حکومت نے مؤقف پیش کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ناقابل سماعت درخواستوں پر حکم جاری کیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون سے متصادم ہے۔
گزشتہ روز نگراں سندھ حکومت نے بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، اور اپیل پر فیصلے تک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی بھی استدعا کی۔
سندھ حکومت کی درخواست میں کہا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا۔
درخواست میں سندھ حکومت نے استدعا کی کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائیں۔
نگراں صوبائی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان نے خود درخواست دی کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی کیا جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔اور 6 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی ٹو کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
تحریری فیصلے میں آرمی ایکٹ کی سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ فوج کی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کے ٹرائل آرمی کورٹس میں نہیں ہوں گے، 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل بارے میں فیصلہ پر تمام ججز متفق ہیں، آرمی ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ محفوظ ہے۔