پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف پاکستان کرکٹ میں سیاسی مداخلت کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ 12 ماہ میں تین چیئرمین اور پانچ سلیکٹرز منتخب ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بابراعظم نے پی سی بی کی جانب سے صرف ٹیسٹ کپتان برقرار رکھنے کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے قومی ٹیم کے تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
بابر اعظم نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف سے ملاقات کی اور انہیں بتایا گیا کہ بورڈ انہیں ریڈ بال کپتان برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن وائٹ بال کرکٹ میں ان کی جگہ کسی اور کو کھلاڑی کو کپتانی دی جائے گی۔
بابر اعظم نے بورڈ کو آگاہ کیا کہ وہ تمام فارمیٹ سے استعفیٰ دینے کو ترجیح دیں گے اور اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔
ایک ٹویٹ میں راشد لطیف نے موجودہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بابر اعظم نے ٹیسٹ کرکٹ کی کپتانی لینے سے انکار کیوں کیا۔
سابق کپتان کی ٹویٹ کے مطابق بابر اعظم اور پاکستان کے کچھ سابق سپر اسٹار کرکٹرز کے درمیان کوئی مسئلہ نظر آتا ہے۔
انہوں نے بغاوتوں، تقسیم، فکسنگ اور گروہی بغاوتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ قومی کرکٹ میں 1981 سے مسلسل سیاسی مداخلت کی جا رہی ہے جو اسےکو تباہ کر رہی ہے۔
سابق وکٹ کیپر اور کپتان نے وقتاً فوقتاً بورڈ اور مینجمنٹ میں تقسیم کے تاریخی حقائق کے ساتھ ساتھ پی سی بی سربراہان اور کپتان کے استعفوں کو بھی پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ راشد لطیف نے قومی کرکٹ ٹیم میں ممکنہ گروپ بندی اور ٹیم کی تقسیم کا بھی اشارہ دیا جو بظاہر ورلڈ کپ 2023 میں ناکامی کی وجہ بنی ہے۔
بابر اعظم کے بطور کپتان دور میں پاکستان ون ڈے رینکنگ میں پہلے نمبر پر پہنچا تھا تاہم بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ سے قبل ٹیم کی کارکردگی میں شدید گراوٹ دیکھی گئی تھی۔
پاکستان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے شاہد آفریدی اور کامران اکمل سمیت کئی سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے بابر اعظم کی کپتانی کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد ذکاء اشرف کی سابق کرکٹرز سے ملاقاتیں ہوئی اور بعد ازاں بورڈ نے ٹیم مینجمنٹ اور کپتانی میں بڑی تبدیلی کی۔