اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت مسترد کردی ،،عدالت نےتحریری فیصلے میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کو 4 ہفتوں میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا ہے
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی ہے، جبکہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل روکنے کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔
شاہ محمود قریشی کی مشکلات کم نہ ہو سکیں اور عدالت نے سائفر کیس میں ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔
گزشتہ ہفتے عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
دوسری جانب چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے فیصلے میں عدم حاضری پر توشہ خانہ کیس میں احتساب عدالت سے خارج چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بحال کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت بحال تصور ہوگی، احتساب عدالت دوبارہ کیس سن کے میرٹ پر فیصلہ کرے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ 190 ملین پاؤنڈ سکینڈل میں گرفتاری کی وجہ سے چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت بحالی کی درخواست غیر موثر قرار دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی گرفتاری کے بعد عدالت پیش نہیں ہوئے تھے جس پر احتساب عدالت نے عدم پیروی پر دونوں کیسز میں درخواست ضمانت خارج کردی تھی، جس پر چیئرمین پی ٹی آئی نے احتساب عدالت فیصلہ کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شاہ محمود قریشی کی ضمانت مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت 4 ہفتوں میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت نامزد کیا گیا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں جرم کی حوصلہ افزائی اور معاونت کے الزامات ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جرم کی معاونت کرنے والے پر بھی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جتنی جرم کرنے والے پر۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت 4 ہفتوں میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرے، شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت نامزد کیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا سیکشن نو کہتا ہے کہ جرم پر اکسانے یا معاونت پر بھی وہی سزا ہوگی جو مرکزی ملزم کی ہوگی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ مرکزی ملزم چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواست سولہ اکتوبر کو مسترد کر چکی ہے۔ شاہ محمود قریشی کی ضمانت بھی مرکزی ملزم سے جڑی ہوئی ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق درخواست گزار کی جانب سے آئین کے آرٹیکل دو سو اڑتالیس کے تحت استثنیٰ بھی مانگا گیا ہے۔ آرٹیکل دو سو اڑتالیس کی استثنیٰ کا اطلاق سرکاری ذمہ داریاں نبھانے کے حوالے سے ہوتا ہے۔
فیصلے کے مطابق شاہ محمود قریشی پر الزام ہے کہ انہوں نے ستائیس مارچ دو ہزار تئیس کو جلسے میں تقریر کے دوران جرم کی حوصلہ افزائی، معاونت کی، ایک جلسے میں تقریر کرنا سرکاری ذمہ داریوں میں شامل نہیں، لحاظہ آرٹیکل دو سو اڑتالیس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ خصوصی عدالت یہ حکم نامہ موصول ہونے کے چار ہفتوں کے اندر اندر سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل روکنے کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے تحریری حکمنامہ جاری کیا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل کو اوپن ٹرائل نہیں کہا جا سکتا، جیل ٹرائل کیلئے پیشگی شرائط پوری کرنے کی کوئی دستاویز ریکارڈ پر نہیں لائی گئی، اگر ایسی کوئی دستاویز موجود ہے تو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کی جائے۔
تحریری حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل کی منظوری دی ہے۔ اٹارنی جنرل وفاقی کابینہ کے فیصلے کی کاپی عدالت کے سامنے پیش نہ کر سکے، اٹارنی جنرل وہ سمری بھی پیش نہ کر سکے جس کی بنیاد پر کابینہ نے فیصلہ کیا۔
حکمنامہ میں کہا گیا کہ کیس کے انصاف پر مبنی فیصلے کیلئے مطلوبہ دستاویزات ریکارڈ پر لانا لازم ہے، انہی دستاویزات کی روشنی میں اپیل کنندہ کے بنیادی حقوق متاثر کرنے کے قانونی نکتے پر بھی فیصلہ کرنا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت سائفر کیس کے ٹرائل پر آئندہ سماعت تک حکم امتناعی جاری کرتی ہے۔