وفاقی حکومت نے کھاد سبسڈی اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لئے رقم دینے سے انکار کردیا۔
وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ، جو مختلف امور پر خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کی چھتری تلے صوبوں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے جب کہ وزارت یوریا سبسڈی اور بی آئی ایس پی فنڈ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے تیار ہے۔
ذرائع نے کہا کہ پالیسی معاملات کو نگراں حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منظوری سے مشروط کر سکتی ہے۔
سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے صوبائی سیکرٹری خزانہ کے ساتھ حالیہ ملاقات میں میں کہا کہ چونکہ یہ دونوں معاملات صوبوں کو تفویض کیے گئے ہیں لہٰذا اب یہ ان ہی کی ذمہ داری ہے۔
یوریا سبسڈی کے بارے میں وفاقی سیکرٹری صنعت و پیداوار نے شرکاء کو بتایا کہ ملک میں یوریا کی کم از کم سالانہ ضرورت دو لاکھ میٹرک ٹن ہے جس پر تقریباً 82 ملین امریکی ڈالر لاگت آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت یوریا پر سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں، چونکہ زراعت صوبائی معاملہ ہے، لہٰذا سبسڈی کا بل صوبوں کی جانب سے 100 فیصد برداشت کیا جانا چاہیے۔
سیکرٹری صنعت و پیداوار کا کہنا تھا کہ آئندہ سیزن یوریا کی درآمد کے لئے آرڈر دینے کی اشد ضرورت ہے، صوبوں کو یوریا کی اپنی ضرورت کو پورا کرنے اور سبسڈی ادا کرنے کی ضرورت ہے، یہ معاملہ پہلے بھی کئی بار صوبوں کے ساتھ اٹھایا گیا تھا لیکن وہ فیصلہ نہیں کر سکے۔
سیکریٹری خزانہ سندھ کاظم حسین جتوئی نے بتایا کہ محکمہ زراعت کی جانب سے سی ایف وائی کے دوران یوریا پر 100 فیصد اور گزشتہ مالی سال کے لیے 50 فیصد سبسڈی دینے کی تجویز کی سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو پیش کردی گئی تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال کے دوران وفاق نے یوریا کی درآمدی ضروریات کے حوالے سے سندھ سے مشاورت نہیں کی۔
اسپیشل سیکرٹری خزانہ خیبر پختونخوا محمد آصف رشید نے تجویز پیش کی کہ یوریا کی درآمد کی ضرورت کے حوالے سے صوبائی حکومت سے مشاورت کی جائے۔
سیکرٹری صنعت و پیداوار نے واضح کیا کہ متعدد وفاقی حکومت صوبوں کی کم از کم ضرورت کے مطابق یوریا درآمد کرے گی، حکومت گھریلو یوریا پر سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ گیس کی کمی کی وجہ سے مقامی یوریا کی پیداوار بھی آر ایل این جی پر منتقل کی جارہی ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے حوالے سے وفاقی سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر خزانہ کی صوبائی وزرائے خزانہ سے ملاقات کے دوران اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا کہ سماجی تحفظ صوبائی موضوع ہے، لہٰذا صوبے بی آئی ایس پی پر ہونے والے اخراجات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ایف بی آر کے ٹیکس فارمولے میں غلطی کا انکشاف، ٹیکس دہندگان کو رقومواپس دینے کا حکم
71 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ پالیسی سطح کےمذاکرات مکمل
انہوں نے وضاحت کی کہ بی آئی ایس پی کے تحت دو طرح کی اسکیمیں ہیں، یعنی مشروط نقد منتقلی اور غیر مشروط نقد منتقلی۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مشروط نقد رقم کی منتقلی کی گئی جو صوبائی موضوعات تھے۔
اسپیشل سیکریٹری خزانہ خیبر پختونخوا نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو مالی چیلنجز کی وجہ سے بی آئی ایس پی سے وابستہ اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔