سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے انسانی حقوق سیل کو جوڈیشل امور کی انجام دہی سے روک دیا۔ عدالتی حکم نامے میں جسٹس اطہرمن اللہ کا 2 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ شامل ہے۔
سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ان چیمبر کارروائیوں کو غیرقانونی قراردے دیا، 3 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس سیل میں آئی درخواستوں پر چیمبر میں ہونے والی سماعت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
سپریم کورٹ نے زاہدہ بی بی کی انسانی حقوق سیل میں دی گئی درخواست پرسماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایچ آرسیل صرف درخواستوں کا جائزہ لے کر چیف جسٹس کو جائزہ کے لیے بھیجنے کا مجازتھا، سابق چیف جسٹس ایچ آرسیل کی درخواستوں کو رجسٹر کرکے سماعت کے لیے مقرر کرنے کے ہی مجاز تھے، پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے بعد چیف جسٹس کا یہ اختیار بھی ختم ہوچکا ہے اور نئے قانون کے تحت 3 ججز پر مشتمل کمیٹی ہی بنیادی حقوق کی درخواستوں کے حوالے سے فیصلے کی مجاز ہے۔
جنرل (ر) فیض پر سنجیدہ الزامات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے، سپریم کورٹکا حکم نامہ
جسٹس اطہر من اللہ نے 2 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایچ آر سیل 2005 سے کام کر رہا ہے، دوران سماعت بتایا گیا کہ سپریم کورٹ میں قائم کردہ انسانی حقوق سیل قانون کے مطابق نہیں۔
اضافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ چیف جسٹس کی جانب سے چیمبر میں دیے گئے احکامات، اقدامات بھی کسی قانون کے مطابق نہیں ہیں، سریم کورٹ کے انسانی حقوق کے جاری کردہ خطوط سے عدالتی احکامات ہونے کا غلط تاثر پیدا ہوتا ہے، چیف جسٹس کی جانب سے فریقین کو چیمبر یا میٹنگ روم میں بلانا شفاف ٹرائل کے منافی ہے۔