مقبول اور زبان زدعام قول ہے ”جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں (جس نے لاہور نہیں دیکھا سمجھو وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا)“۔ لیکن اسموگ کے باعث صوبائی دارالحکومت کی آلودہ فضا اور گرد آلود خوبصورتی دیکھتے ہوئے ترمیم کی جاسکتی ہے کہ ’جنے لہور نئیں ویکھیا او کھنگیا (کھانسا) ای نئیں‘۔
لاہور تاریخی ورثے کا حامل شہر ہے جہاں کئی اہم تاریخی مقامات موجود ہیں لیکن اسموگ نہ صرف جانے والوں کو یہاں کی خوبصورتی دیکھنے سے روک رہی ہے بلکہ اُن سمیت وہاں بسنے والوں کو مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا کررہی ہے۔
حکام نے صورتحال کے پیشِ نظر شہر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کردیا ہے۔
ایسی صورتحال میں منچلے انٹرنیٹ صارفین نے اس مقبول قول کو کھانسی اور آلودہ ہوا سے منسوب کرتے ہوئے پُرلطف تبصرے اور میمز شیئر کرڈالیں۔
نمک ملا نیم گرم پانی پینے کے معجزاتی فوائد
اشنا شاہ کا ہالی ووڈ اداکاروں کے بائیکاٹ کا مطالبہ
اسمارٹ فون کو ٹکر دینے والے عمران چوہدری کون ہیں، پاکستان سے کیا تعلق
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ ’جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں‘ لیکن ’لاہور پہلے نظر تو آئے‘۔
لاہور کے حوالےسے ایک اور قول بہت مشہور ہے کہ ”لہور لہور اے“ یعنی اس جیسی خوبصورتی دنیا کے کسی شہر میں نہیں ہے۔
لیکن اب لاہوریوں کا ماننا ہے کہ ”لاہور لاہور تھا“، کیونکہ اسموگ کی صورتحال نے اسے آلودگی سے نمٹنے والے دیگر شہروں کے مقابلے میں بدتر بنا دیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ اسموگ ان کی جان لے رہی ہے۔
لاہور میں اسموگ ہر سال ہی موسم سرما میں ایک بڑا مسئلہ رہتا ہے جسے سوشل میڈیا پر بھی بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جاتا ہے۔
اسی تناظر میں کئی صارفین نے صاف ستھرے لاہور کی یادیں شیئر کیں جو اب دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر بن چکا ہے۔
لاہور کے باشندے اس مسئلے سے چھٹکارا پانے کے لیے مستقل حل چاہتے ہیں۔