پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے کہا ہے کہ وزیراعظم افغان قیادت کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ پاکستان یا ٹی ٹی پی کا انتخاب کرنا ہوگا۔
یڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آصف درانی کہا کہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے پاکستان کے لیے افغانستان سے ابھرنے والے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے دوٹوک بات کی، خاص طور پر جب سے ٹی ٹی پی افغانستان میں اپنے خاندانوں کے ساتھ پناہ لیے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 6 ہزار ٹی ٹی پی عسکریت پسند افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ پناہ گاہیں بنا کر رہ رہے ہیں جو سکیورٹی فورسز پر حملوں کے ذمہ دار ہیں اور وہ پاکستان میں عام لوگوں کے قتل عام میں بھی ملوث ہیں۔
افغانستان میں افیون کی کاشت 95 فیصد کم ہوئی
آصف درانی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عبوری حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ امن لائے ہیں اور اب افغانستان میں نہ جرائم ہیں اور نہ ہی کوئی بدعنوانی، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معیشت کو بہتر کیا ہے۔
پاکستان کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ اس بات کو دنیا تسلیم کرتی ہے جب کہ افغانستان میں افیون کی کاشت میں بھی 95 فیصد کمی آئی لیکن وہاں امن پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا کیونکہ جن لوگوں نے افغانستان کے اندر پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں وہ پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔
پاکستان میں خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوچکا
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان حملوں میں 65 فیصد اضافہ ہوا جیسا کہ وزیر اعظم نے اشارہ کیا تھا، پاکستان میں خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
انٹرویو میں آصف درانی نے کہا کہ وزیراعظم طالبان قیادت کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہیں یا تو پاکستان یا ٹی ٹی پی کا انتخاب کرنا ہے، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، انہوں نے ہمارے وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کا جواب دیا ہے لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ عملی اقدام کیا کرتے ہیں۔
اب افغان شہریوں کی نقل و حرکت پاکستان میں محدود ہے
پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کا کہنا تھا کہ اب افغان شہریوں کی نقل و حرکت پاکستان میں محدود ہے، اگر کوئی غیر قانونی ہے تو ملک بدری ایک قانونی اقدام ہے جو کوئی بھی حکومت اٹھا سکتی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کا جلد اجلاس منعقد کیا جائے گا
آصف درانی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان، ایران اور اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کا ایک چار فریقی فورم موجود ہے جب کہ ایک تین فریقی میکانزم بھی موجود ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر شامل ہیں جس کا جلد اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ امن کو یقینی بنا سکتے ہیں تو اب وقت آگیا ہے وہ اپنے شہریوں کو واپس لینے پر غور کریں۔
پاکستان کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ اس وقت مسئلہ ٹی ٹی پی کا ہے اور ان کو قابو کرنے کا ہے اور چونکہ وہ افغانستان میں ہے تو اس لیے ان کو کنٹرول کرنا، انہیں غیر مسلح کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے جس سے وہ عاری نہیں ہو سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ افغان حکومت اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں
میڈیا نمائندگان کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ چترال واقعے کے وقت نور ولی محسود وغیرہ کی باقاعدہ ویڈیو وائرل ہو رہی تھی، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی سمبائوٹک ریلیشن شپ میں رہے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
آصف درانی نے کہا کہ ملا ہیبت اللہ کی طرف سے ورڈکٹ آیا ہے پاکستان پر حملہ کرنا حرام ہے، ٹی ٹی پی کے کارندوں کو چھوٹ دی گئی کہ جب بھی چاہیں افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں سر انجام دے کر واپس چلے جاتے ہیں۔
تقریبا 20 سے 25 ہزار افغان ہر روز پاکستان میں داخل ہوتے ہیں
انہوں نے کہا کہ چمن بارڈر پہ تقریباً 20 سے 25 ہزار افغان ہر روز پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، البتہ جن لوگوں کو واپس بھیجا گیا ان کی پاکستان میں کوئی قانونی حیثیت نہیں۔