سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق اپیل ہر مجرم کا حق ہے، 3 سال 8 ماہ گزرنے کے بعد اپیل کا سماعت کے لیے مقرر ہونا بدقسمتی ہے، عدالت کے بروقت اقدام نہ کرنے کا نقصان کسی بھی سائل کو نہیں ہونا چاہیئے۔
اپنے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ چیمبر احکامات کے باوجود اعتراضات کے خلاف اپیل مقرر نہ ہوئی اور درخواست گزار کا انتقال ہوگیا، عدالت میں موجود کسی ایڈیشنل اٹارنی جنرل اورسینئر وکلاء نے اپیل مقرر کرنے پر اعتراض نہیں کیا، رجسٹرار اعتراضات کے خلاف پرویزمشرف کی اپیل منظور کی جاتی ہے۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ پرویزمشرف کے وکیل سلمان صفدر کے مطابق وہ ان کی بیوہ اور بچوں سے رابطے میں ہیں، وکیل کے بقول وہ سابق صدر کے اہلخانہ سے اپیل مقرر ہونے پر ہدایات لیں گے، پرویز مشرف کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر سماعت21 نومبر کو ہوگی۔
گزشتہ روز 10 نومبر کو سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں سزا کے خلاف اپیل مقرر کرنے کی متفرق درخواست سمیت اس ضمن میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست بھی سماعت کے لیے منظور کر تے ہوئے تمام فریقین کو 21 نومبر کو عدالت طلب کیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل تھے۔
خصوصی عدالت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل میں حامد خان جبکہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے عابد ساقی عدالت میں پیش ہوئے، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی رشید رضوی جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں کہ ہم نے بینچ تبدیل کیا ہے، وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں بینچ تبدیل کرنے کے حق میں نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کو بینچ میں اس لئے شامل کیا گیا کہ وہ ماضی میں یہ مقدمہ سن چکے ہیں، سمجھ نہیں آ رہا کہ 2019 کے مقدمات آج تک مقرر کیوں نہیں ہوئے۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل بیماری کے باعث ٹرائل سے غیر حاضر رہے، جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ان کی اپیل اتنا عرصہ مقرر کیوں نہیں ہوئی، سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اپیل کے لیے سرینڈر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اپیل کے لیے سرینڈر قانون ہے یا پریکٹس، جس پر سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ آرڈر 23 رولز 3 کے تحت سرینڈر ضروری تھا، پرویز مشرف کی سزا کا فیصلہ اس لیے چیلنج کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی جبکہ خصوصی عدالت کا فیصلہ متفقہ نہیں تھا۔
سلمان صفدر کے مطابق اپیل پر رجسٹرار کے اعتراضات تھے، جس کے خلاف چیمبر اپیل کی کوشش کرتا رہا، ان کا موقف تھا کہ ایک شخص کا ٹرائل اور سزا عدم موجودگی میں ہوسکتی ہے تو اپیل کیوں نہیں، پرویز مشرف کی غیر حاضری بدنیتی نہیں، مشرف سزا کے بعد ملک سے نہیں بھاگے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیمبر اپیل میں جج اپیل مسترد کرتا ہے یا منظور، تیسرا آپشن یہ ہے کہ جج اپیل کو اوپن کورٹ میں مقرر کردے، اپیل اوپن کورٹ میں کیوں مقرر نہ ہوئی، سلمان صفدر بولے؛ میں اس سوال کا جواب شاید نہ دے سکوں، میں مشرف کے ساتھ اس طرح رابطہ میں نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جب اپنا احتساب نہیں کریں گے تو باقیوں کا کیسے کریں گے، چیمبر اپیل میں جب آرڈر ہوگیا تھا تو اس اپیل کو مقرر ہونا چاہیے تھا،
سلمان صفدر کی جانب سے بے نظیر بھٹو بنام احتساب کمشنر کیس کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کے پاس تمام عدالتی نظیریں موجود تھیں تو آپ کی چیمبر اپیل کیوں منظور ہوئی جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ چیمبر میں جج کا موقف تھا کہ لارجر بینچ اپیلوں پر سماعت کریں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پرویز مشرف کی وفات کب ہوئی، جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ ان کے پاس ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نہیں ہے تاہم ان کی وفات فروری 2023 میں ہوئی ہے، 2022 کے بعد سے پرویز مشرف بول چال کے قابل نہیں رہے تھے، جس کے باعث وہ ان سے ہدایت کے لیے رابطے میں نہیں رہ سکے۔
پرویز مشرف کے انتقال کے بعد کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کیخلاف اپیلسماعت کیلئے مقرر
سابق آمر پرویز مشرف انتقال کر گئے
پرویز مشرف کیخلاف قائم خصوصی عدالت ختم کرنے کی اپیل سماعت کیلئےمقرر
سلمان صفدر نے مشرف کے لواحقین سے تازہ ہدایات لینے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی فیملی میں اپیل مقرر نہ ہونے پر ناراضی پائی جاتی تھی، جس پر چیف جسٹس بولے؛ ابھی ہم مشرف کی مرکزی اپیل نہیں متفرق درخواست کی بات کر رہے ہیں۔ سلمان صفدر نے کہا کہ متفرق درخواست میں مرکزی اپیل مقرر کرنے کی استدعا تھی۔
سپریم کورٹ نے مشرف کی اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ پرویز مشرف کے وکیل کے مطابق اپیل پر رجسٹرار نے اعتراض عائد کیا جس کے خلاف اپیل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ہوئی، چیمبر سے جج نے کیس لارجر بینچ میں لگانے کا کہا تاہم اس کے بعد کیس مقرر نہیں ہوا اور پرویز مشرف کی وفات ہو گئی۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے وکیل نے آئین میں بھی اپیل کا حق دینے کا حوالہ دیا، کیس میں تمام فریقین سے پوچھا گیا کہ مشرف کی اپیل کو مقرر کرنے پر کسی کو اعتراض تو نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل سمیت کسی فریق نے اعتراض نہیں اٹھایا، افسوس ناک ہے کہ چیمبر میں جج کے حکم کے باوجود اپیل آج تک مقرر نہیں ہوئی۔
عدالتی حکمنامے کے مطابق اپیل کنندہ یا اس کے وکیل کو اپیل مقرر نہ ہونے پر ذمہ دار نہیں کہا جا سکتا، کسی کو بھی عدالت کے کنڈکٹ کا خمیازہ نہیں بھگتا چاہیے، اپیل کسی کی بھی سزا یافتہ شخص کا حق ہے، مشرف کی اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی متفرق درخواستیں منظور کی جاتی ہیں۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس اظہر صدیق اور خواجہ طارق رحیم نے چلایا تھا، ذاتی وجوہات پر اس فیصلے سے متعلق معاونت نہیں کروں گا، تاہم انہوں نے سزا کیخلاف اپیل کے حوالے سے پرویز مشرف کے لواحقین سے تازہ ہدایت لینے کے لیے 4 ہفتوں کی مہلت طلب کی۔
جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ آپ نے ایک ہی ہدایت لینی ہے کہ اس اپیل کی پیروی کرنی ہے کہ نہیں، چیف جسٹس نے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی ڈرافٹنگ پر ان کے وکیل سلمان صفدر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپیل پڑھی ہے یہ ایک اچھی دستاویز ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل کی پیروی کرتے ہوئے بیرسٹر حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے سابق صدر کیخلاف خصوصی عدالت کو جلد ٹرائل مکمل کرنے کو حکم دیا تھا۔
حامد خان نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے احکامات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خصوصی عدالت کا قیام ہی غیرقانونی قرار دیا تھا، جو اسلام آباد میں قائم ہوئی اور یہیں اس نے فیصلہ دیا تھا، لاہور ہائیکورٹ کا دارالحکومت کی عدالت کیخلاف دائرہ اختیار نہیں بنتا تھا، سپریم کورٹ یکم اپریل2019 میں خصوصی عدالت کے حوالے سے احکامات دے چکی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ لاہور ہائیکورٹ نے شاید یکم اپریل کی تاریخ کی وجہ سے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو عدالتی فیصلہ مانتے ہیں، جس پر حامد خان کا مؤقف تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ غیرآئینی اور دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبصرے سے معذرت کرلی۔
عدالتی استفسار پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن وکیل رشید رضوی نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں فریق نہ ہونے کی وجہ سے درخواستوں کو نمبر الاٹ نہیں ہوا تھا، سپریم کورٹ نے حافظ عبدالرحمان انصاری سمیت بار ایسوسی ایشنز سمیت کی اپیلوں کو نمبر لگانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے لاہور اور کراچی میں موجود وکلاء کو اسلام آباد آ کر دلائل دینے کی ہدایت بھی کی۔ آن لائن موجود وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کا موسم بہت اچھا ہے، بہتر ہے لاہور کے انتہائی آلودہ ماحول سے یہاں اسلام آباد آکر دلائل دیں۔