خیبرپختونخوا کے نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان 90 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں، جس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبے کا نثظام اب کسطرح چلے گا، نئے نگراں وزیراعلیٰ کا انتخاب کس طرح ہوگا اور ان کی کابینہ کا کیا بنے گا۔
ان نسوالوں کے جوابات دیتے ہوئے ماہر قانون حافظ احسان نے آج نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کیونکہ نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان انتقال کر گئے ہیں اس لیے ان کی کابینہ بھی خودکار طریقے سے تحلیل ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’جب چیف منسٹر ہی نہیں رہا تو آُ کی کابینہ بھی ایگزسٹ (وجود) نہیں کرتی‘۔
حافظ احسان کا کہن اتھا کہ کسی کے خلاف اعتماد کا ووٹ کامیاب ہوجائے، وزیراعلیٰ مستعفی ہوجائے یا اس کا انتقال ہوجائے، تینوں ہی صورتوں میں سب سے پہلا کام جو ہوگا وہ یہ کہ کابینہ تحلیل کردی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کوئی معمول کا معاملہ ہوتا تو اسمبلی اپنا لیڈر آف دی ہاؤس منتخب کرتی، اب صرف ایک ہی آپشن آرٹیکل 224 بچ جاتا ہے جس کے تحت نگراں وزیراعظم لگانے کا اختیار صدر کے پاس ہے اور نگراں وزیر اعلیٰ لگانے کا اختیار گورنر کے پاس ہے۔
لیکن انہوں نے مشورہ دیا کہ کوئی بھی نگراں وزیراعلیٰ لگانے سے پہلے سابق وزیراعلیٰ یا حزب اختلاف سے مشورہ کرلیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
حافظ احسان کے مطابق اب گورنر کی ذمہ داری ہے کہ وہ آرٹیکل 224 کو نافذ کرے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا بھی کہنا ہے کہ نگراں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے انتقال کے بعد صوبائی کابینہ تحلیل ہوچکی ہے اور صوبے کے تمام اختیارات گورنر کے پاس چلے گئے ہیں۔