سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے بھیجے گئے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے چیف جسٹس قاضیٰ فائزعیسیٰ سمیت دیگر ججز پر اعتراض اٹھادیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے کونسل کی تشکیل پر ہی اعتراض اٹھا دیا۔ انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس نعیم اختر افغان پر اعتراض اٹھایا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں درج ریفرنس اور شواہد کا تمام ریکارڈ بھی مانگ لیا ہے۔
اس حوالے سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس پر 18 صفحات پر مشتمل جواب جمع کروادیا۔
اپنے جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کا مجھے جاری کردہ شوکاز نوٹس بنیادی حقوق کےمنافی ہے، کونسل اکثریتی فیصلے کے ذریعے کسی جج کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی، کسی جج کے خلاف اس وقت کارروائی کرسکتی ہے جب متفقہ فیصلہ ہو، چیف جسٹس اورجسٹس سردارطارق کونسل کے رولز کو غیرآئینی قرار دینے کی رائے دے چکے ہیں، الزامات کی تصدیق کیے بغیر مجھے شوکازنوٹس بھیجا گیا، کونسل اجلاس میں میرے خلاف شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا، سپریم کورٹ تعیناتی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میری تعیناتی کی مخالفت کی۔
جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ 3 اپریل 2023 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے سابق چیف جسٹس کو خط لکھ کر میرے خلاف کارروائی چلانے کی بات کی، شکایات میں مجھ پرمبینہ آڈیوکا بھی حوالہ دیا گیا لیکن مبینہ آڈیوکی کبھی تصدیق نہیں کرائی گئی، کمیشن میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان شامل تھے، دونوں معزز جج صاحبان کو میرے خلاف شکایت نہیں سننی چاہیئے، جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف شکایات پر رائے دینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سماعت کے دوران جسٹس سردارطارق مسعود اور جسٹس اعجازالاحسن پر اعتراض کیا گیا، جس پر دونوں جج صاحبان عدالتی بینچ سے الگ ہوگئے تھے۔
جسٹس مظاہرنقوی کی طرف سے دیے گئے جواب کے مطابق میرے خلاف جوڈیشل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کےتحت ہیں، جس میں شفافیت کا فقدان ہے اور غیرقانونی ہے، میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اورمن گھڑت ہیں، مجھے شکایات اور دیگرمواد تک رسائی نہ ہونے کے سبب میں مفلوج ہوں، مجھے مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے، جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں، سپریم جوڈیشل کے جاری اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدارہے، اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔
اسلام آباد بارکونسل کی جسٹس مظاہر کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایتدرج
جسٹس مظاہر نقوی کا چیف جسٹس کو خط، عدلیہ مخالف مہم کےالزامات
یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 27 اکتوبر کو ہونے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس پر انہیں شوکاز نوٹس جاری کرکے 10 نومبر تک جواب طلب کیا گیا تھا۔