سکھوں کے ساتھ کشیدگی بڑھنے پر بھارت نے کرتارپور راہداری بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے 20 ڈالر فیس سے استثنیٰ دینے کا مطالبہ کردیا۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کرتارپور راہداری تک رسائی کے لئے 20 ڈالر فیس اور لازمی پاسپورٹ کی ضرورت کے بارے میں پاکستان کے ساتھ تشویش کا اظہار کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہداری کو بند کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے 20 ڈالر فیس ختم کرنے کا مطالبہ دہرایا ہے۔
ترجمان بھارتی وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت، متعلقہ حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھاتا رہے گا۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے 9 نومبر کو کرتارپور راہداری کا افتتاح اس وقت کیا تھا جب پاکستانی برادری بابا گرونانک کا 550 واں جنم دن منا رہی تھی۔
رپورٹس کے مطابق دونوں طرف سے اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ بھارت کرتارپور صاحب میں روزانہ 5 ہزار یاتریوں کو جانے کی اجازت دے گا لیکن اصل تعداد روزانہ اوسطا 200 کے قریب رہی ہے۔ یہ منصوبہ بھی بنایا گیا تھا کہ آنے والے سالوں میں کرتارپور راہداری سے گزرنے والوں کی تعداد کو دوگنا کردیا جائے گا۔
یاد رہے کہ لاہور سے تقریبا 115 کلومیٹر دور نارووال میں واقع کرتارپور صاحب گوردوارہ سکھ برادری کے لئے سب سے زیادہ قابل احترام مندر وں میں سے ایک ہے ، کیونکہ بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال وہیں گزارے تھے۔
مندر اور گورداسپور کے درمیان فاصلہ صرف 3 کلومیٹر ہے لیکن کراسنگ کے بغیر بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو اس تک پہنچنے کے لیے امرتسر اور لاہور کے راستے سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا تھا۔
کرتارپور راہداری کے حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں سال جون میں کینیڈا میں سکھ برادری کے رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے بعد سکھ برادری کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔
ستمبر میں بھارت نے کینیڈا کے ایک سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے لیے پانچ دن کے نوٹس کے ساتھ ملک سے نکال دیا تھا۔ جبکہ کینیڈا نے جنوبی ایشیائی ملک کے چوٹی کے انٹیلی جنس ایجنٹ کو ملک بدر کر دیا تھا اور اس پر سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
گزشتہ ماہ ہندوستان نے کہا تھا کہ کینیڈا کے ساتھ اس کے تعلقات ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں اور نئی دہلی کے اندرونی معاملات میں کینیڈین اہلکاروں کی طرف سے ”مسلسل مداخلت“ جاری ہے۔