امریکی شہر نیویارک میں ایک اسرائیلی سفارت کار نے مشہور کالج کو قائل کرنے کی کوشش کہ وہ فلسطین میں اسرائیلی نسل پرستی کو پروان چڑھانے سے متعلق کورس کو پڑھانا بند کردیں۔
غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیویارک میں پبلک ڈپلومیسی کے لیے اسرائیلی قونصل یوول ڈونیوگیڈون نے رواں سال کے آغاز میں بارڈ کالج سے رابطہ کرنے کا انتہائی غیر معمولی قدم اٹھایا ہے، کورس پر اعتراض کا جواز یہ پیش کیا کہ اس میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو جنم دے گا۔
اس کے بعد بات یہاں ختم نہیں ہوئی، جب کالج نے کورس کی منسوخی کے حوالے سے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی، تو ان کو اسرائیل کے حمایت یافتہ گروپوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑٖا، ان سے ایک بڑا عطیہ دہندہ بھی شامل تھا۔
بوسٹن سیلٹکس کے شریک مالک اور پراپرٹی ڈویلپر رابرٹ ایپسٹین نے کالج کے اس کورس کو منسوخ کرنے سے انکار پر احتجاجاً کالج کے بورڈ آف ٹرسٹیز سے استعفیٰ دے دیا۔
یاد رہے کہ یہ کورس یروشلم میں رہنے والے ایک یہودی امریکی مصنف اور محقق ناتھن تھرل نے ڈیزائن اور پڑھایا تھا۔
ناتھن تھرل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قونصل خانے نے بارڈ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ کورس منسوخ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں یہودیوں سے متعلق نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بارڈ کلج کے صدرلیون بوٹسٹین نے تصدیق کی کہ اسرائیلی قونصل یوول ڈونیوگیڈون نے کورس کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے اور اس پر اعتراض کرنے کے لیے کہا تھا۔
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں اسرائیلی قونصل خانے کی مداخلت میں کوئی ناخوشگوار چیز نہیں ملی، یہ پوچھے جانے پر کہ کیا دوسرے غیر ملکی سفارت کاروں نے کبھی بارڈ کالج کے نصاب کے مواد پر اعتراض کرنے کے لیے فون کیا ہے۔
مغربی کنارے میں ایک فلسطینی یونیورسٹی القدس کے ساتھ مشترکہ ڈگری پروگرام چلانے والے بارڈ کالج نے امریکی مصنف اور محقق ناتھن تھرل کو تحریری فیلوشپ سے نوازا، جو اس نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب A Day in the Life of Abed Salama: Anatomy of a Jerusalem کو مکمل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اس کے بعد کالج کی جانب سے انہیں ایک کورس پڑھانے کے لیے بھی مدعو کیا اورناتھن تھرل نے موسم بہار کے سمسٹر کے لیے مذکورہ کورس کی تجویز دی تھی۔