سندھ ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر وفاقی وزارت داخلہ اور دفاع کی رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کی رپورٹ مسترد کردی اور ہر اینگل سے لاپتہ شہریوں کا سراغ لگانے کا حکم دے دیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی جہاں پولیس حکام کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی گئیں تاہم عدالت نے پولیس رپورٹس کو روایتی رپورٹس قرار دے دیا۔
لاپتہ افراد کا سراغ نہ لگانے پر عدالت نے جے آئی ٹی حکام پر بھی اظہار برہمی کرتے ہوئے پولیس رپورٹ مسترد کردی۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیے کہ جے ٹی آٹی اجلاس میں لاپتہ افراد کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا تو یہ کارروائی فضول ہے، لوگوں کو بس پریشان کرتے ہیں، ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہے، 26 جے آئی ٹیز اجلاس کے بعد بھی سراغ نہیں لگایا جاسکا تو سب فضول ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے رپورٹ جمع کرائی گئی، جس میں کہا گیا کہ مذکورہ لاپتہ افراد کی کسی بھی وفاقی ادارے کے حراستی مرکز میں قید نہیں ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی وزارت داخلہ اور دفاع کی رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
عدالت نے ہر اینگل سے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب ایسا نہیں چلے گا، لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ہوگا ورنہ تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی ہوگی۔
سندھ ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی سربراہ اور صوبائی ٹاسک فورس سربراہ کو بھی طلب کرتے ہوئے اجلاس کے 3 روز بعد جے آئی ٹیز رپورٹ جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
لاپتہ افراد کیس: مبینہ اغوا ہونے والی لڑکیاں پسند کی شادی کرکے عدالتپہنچ گئیں
لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں میں بڑی پیشرفت، 6 کا سراغمل گیا
غیر قانونی غیرملکیوں بے دخلی ریاست کی پالیسی ہے، عدالت مداخلت نہیںکرسکتی، سندھ ہائیکورٹ
عدالت عالیہ نے لاپتہ شہری نور زمان، حیدر، طلحہ، خیر الرحمان اور دیگر کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کردی۔