ادارہ برائے بحالی معذوران خیبر پختونخوا میں عجب کرپشن کی غضب کہانی سامنے آئی ہے۔ سال 2009 سے 2020 تک آڈٹ رپورٹ میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ادارے کی تین قیمتی گاڑیاں نیلامی کے نام پر اُسی ادارے کے افسران کو صرف ایک لاکھ روپے قیمت پر دے دی گئیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹرآڈٹ خیبرپختونخوا کی آڈٹ رپورٹ نے فیس کی مد سے لے کر بھرتیوں، اسکالر شپس اور ڈاکٹرز کی تعیناتی تک میں بے قاعدگیوں کا پول کھول دیا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں محکمہ نے فیس کی مد میں 2 کروڑ روپے سے زائد رقم وصول کی، لیکن صرف 1 کروڑ 85 لاکھ ہی ادارے میں جمع کیے جاسکے۔
2005ء زلزلے میں معذوروں کے لیے لی گئی گاڑیاں این جی او کو دے دی گئیں، ادارے کی تین قیمتی گاڑیوں کو نیلام کیا گیا اور پھر ادارے کے افسران کو ہی بیچ دیا گیا۔
جاپانی پجیرو جیپ (وہیکل نمبر اے 2477) مینیجنگ ڈائریکٹ پیپوز لیاقت علی کو، متسوبیشی پک اپ ٹرک (ڈالہ) (وہیکل نمبر اے 2392) فزیوتھیراپسٹ تاجدار آفریدی کو اور ایک اور متسوبیشی پک اپ ٹرک (ڈالہ) (وہیکل نمبر اے 2468) اسسٹنٹ مسز گل حسن کو محض ایک لاکھ روپے میں فروخت کردی گئیں۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پروسٹیٹک اینڈ آرتھوٹک سائنسز (پیپوز) کو یہ گاڑیاں عطیہ کی گئی تھیں۔
ایڈمن آفیسر پیپوز کی رپورٹ کے مطابق اخبار میں اشتہار کے باوجود نیلامی میں کسی نے کوئی بولی نہیں پیش کی، جس کے بعد مینیجنگ ڈائریکٹر نے فیصلہ کیا کہ گاڑیاں ریگولر اسٹاف کو فروخت کردی جائیں۔
رپورٹ کے مطابق 9 ملازمین کو قواعد کے برعکس مختلف اسکیلز میں بھرتیاں دی گئی، غیر قانونی طور پر 41 لاکھ 26 ہزار روپے نو طلباء کو اسکالر شپس کی مد میں دیے گئے۔ بورڈ کی اجازت کے بغیر ادارے کے ایم ڈی نے دو ڈاکٹرز کو ملازمت دی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ چار سال بجٹ منظور نہ ہونے کے باوجود 77 کروڑ 53 لاکھ روپے کے اخراجات کیے گئے، مختلف آئٹمز کی خریداری و دیگر امور میں بھی بے قاعدگیاں کی گئی ہیں۔