اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹر نے شاہ محمود کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا سائفر کیس کا ٹرائل زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے مقدمے کی ایف آئی آر پڑھی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ انفارمیشن یا سائفر کو غیر قانونی رکھنا اور اس کا استعمال کرنا جرم ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں، یہ سب میں نہیں بلکہ ایف آئی آر کہہ رہی ہے، میرا تو نام بس آخر میں لکھا گیا ہے، پہلے سابق وزیراعظم کی درخواست ضمانت خارج ہوئی اور پھر میرے موکل کی۔ اعظم خان اور اسد عمر کا نام چالان میں نہیں ہے جبکہ ایف آئی آرمیں سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اوراسد عمرکا ذکرہے۔
ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت خارج جبکہ اسد عمر کی ضمانت کنفرم کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ سائفر کا ٹرانسکرپٹ ڈسکلوز نہیں کیا؟ سائفر آنے کے بعد وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ نے مشاورت کی کہ سائفر نے کہاں کہاں جانا ہے؟۔
علی بخاری نے جواب دیا 7 مارچ 2022 کو سائفر آیا اور 8 مارچ 2022 کو ہی کابینہ میٹنگ لایا گیا، کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں جو بھی شامل کیا جاتا ہے وہ پرنسپل سیکرٹری کرتے ہیں جومقدمے میں ہی نہیں ہیں، وزارت خارجہ کا کام ہرمعاملے کووزیراعظم کو بزریعہ پرنسپل سیکرٹری آگاہ کرنا ہے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے رولزآف بزنس کیبنٹ سیکرٹریٹ عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ سائفر رکھنے، سنبھالنے کی ذمہ داری وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی تھی، وزیراعظم نے وزیرخارجہ کی فراہم کردہ معلومات کو کابینہ کے سامنے رکھنا ہوتا ہے، شاہ محمود قریشی کے خلاف کیس سزائے موت کا تو نہیں ہے، پراسیکیوشن کا پورا کیس درست مان لیا جائے تو بھی 2 سال کی سزا بنتی ہے۔
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرراجہ رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 9 اکتوبر کو کاپیز کی نقول شاہ محمود قریشی کو دی گئیں تھیں، 17 اکتوبرکو شاہ محمود قریشی نے 9 اکتوبرکے آرڈرپر دستخط کیے تھے۔ 23 اکتوبر کو قانونی تقاضے پورے کرکے فرد جرم عائد ہوئی تھی، قانون میں صرف کاپیز فراہم کرنے کا ذکر ہے، ملزم کے وصول کرنے کا نہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے مزید کہا کہ مقدمہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں تھا مگرلاہورہائی کورٹ کا ایک سال تک حکم امتناع رہا، ایف آئی اے نے حکم امتناع خارج ہونے پرانکوائری مکمل ہونے پر کمپلینٹ پرمقدمہ درج کیا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے شاہ محمود قریشی کی تقریرکا متن پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ غیرت مند قوموں اورملکی غیرت جیسے الفاظ کا استعمال کرکےاشتعال دلانے کی کوشش کی گئی۔
راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں معاونت کے ثبوت موجود ہیں، مزید انکوائری کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا شاہ محمود قریشی کے خلاف چارج معاونت کا ہی ہے؟ سائفر اپنے پاس رکھنے اور مس یوز کرنےکا تو نہیں؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی بالکل شاہ محمود قریشی پر چارج معاونت کا ہی ہے۔ اگرعدالت ہمیں 15 سے 20 روز یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ دے تو ٹرائل مکمل کر دیں گے، یہ تو یہ ٹرائل کو آگے نہیں بڑھنے دیتے، یہ کہتے ہیں ہر سماعت پر 3،3 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کریں، سائفر کیس کا ٹرائل زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ جیل ٹرائل ہے، ان کیمرا ٹرائل نہیں، جیل ٹرائل کس انداز میں چل رہا ہے؟ جیل ٹرائل کا مطلب ہے کہ اوپن پبلک کورٹ پروسیڈنگ نہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا جیل ٹرائل میں پبلک کی رسائی منع نہیں مگر محدود ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل کے دوران تو صرف لوگ ٹرائل پروسیڈنگ دیکھ سکیں گے جنہیں جیل حکام اجازت دیں۔
وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔