بلوچستان کے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی نے کہا ہے کہ کانگو وائرس کے پھیلاو کو قابو پالیا ہے اور جس وارڈ سے یہ پھیلا اسے سیل کردیا گیا ہے کراچی میں زیرعلاج 10 ڈاکٹروں میں دو کی حالت تشویشناک ہے، اگر کوسٹ گارڈ حکام ایمبولینس کو 3 ھنٹے نہ روکتے تو ڈاکٹر کی زندگی بچ جاتی۔
کوئٹہ پریس کلب میں وزیر اطلاعات کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کانگو وائرس کے کیسز کا رپورٹ ہونا معمول ہے، لیکن اس طرح ایک مریض سے محکمہ صحت کے عملے تک پھیلنا تشویشناک ہے۔
نگراں وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اس وقت 10 ڈاکٹرز کراچی میں زیر علاج ہیں جن میں دو کی حالت تشویشناک ہے، امید ہے وہ تمام افراد جلد صحت یاب ہونگے۔
نگراں وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ایئر ایمبولینس نہ ہونے کے باعث کانگو میں مبتلا ڈاکٹر اور عملے کو ایمبولینس کے ذریعے کراچی منتقل کیا گیا، اگر اوتھل میں کوسٹ گارڈ کی جانب سے ایمبولینس کو 3 گھنٹے تک نہ روکا جاتا تو ڈاکٹر شاکراللہ جان کی زندگی بچ جاتی۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کوئٹہ کے چئیرمین ڈاکٹر یاسر اچکزئی اور سیکریٹری جنرل امان اللہ نے شال پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شال سے کراچی بھیجے جانے والی 5 ایمبولینسز کے قافلے کو کوسٹ گارڈ نے تین گھنٹے تک وندر میں روکے رکھا، جس کی وجہ سے کانگو وائرس سے متاثرہ ایک ڈاکٹر شاکر اللہ انتقال کرگئے، تاہم، کوسٹ گارڈ نے اس کی تردید کردی ہے۔
اتوار کو ڈاکٹر یاسر اچکزئی کا کہنا تھا کہ شال میں کانگو سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 16 ہوگئی ہے، اپنی مدد آپ کے تحت ڈاکٹروں کو کراچی بھیجا جا رہا تھا کیوں کہ حکومت صحت بلوچستان صحت کی سہولیات کے حوالے سے کوئی تعاون نہیں کررہی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی بھیجے جانی والے ایمبولینسز کے قافلے کو تین گھنٹے تک کوسٹ گارڈ نے وندر کے مقام پر بلاوجہ روکے رکھا جس سے ایک مریض ہلاک ہو گیا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی کانگو وائرس سے ہلاکت کی ذمہ دار حکومت ہے، نگراں حکومت صرف کاغذی شیر بنی پھرتی ہے حقیقت میں وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا جاں بحق ڈاکٹر کے خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے اور مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے۔
پیر کو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کوئٹہ کے ڈاکٹر حفیظ کاکڑ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان نے ابھی تک متاثرہ صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کی فوری منتقلی کے لیے کوئی سہولت فراہم نہیں کیں۔ ’آج، ایسوسی ایشن چار مزید ڈاکٹروں کو آغا خان یونیورسٹی اسپتال منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ محکمہ صحت بلوچستان نے مریضوں کو ہوائی جہاز سے لے جانے کی اپیل کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔‘
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ کوسٹ گارڈ نے ایمبولینس روکے جانے سے متعلق کسی بھی واقعے کی تردید کردی ہے، کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کی ایمبولینس کو روکا نہیں گیا۔
کوسٹ گارڈ کی جانب سے جاری وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ رات درمیانی رات آرسی ڈی ہائی وے پر وندر کے قریب آٹھ کلو میں کراچی کی طرف ایک ڈیزل سے بھرا ہوا ٹرک (رجسٹریشن نمبر 208-FDA ڈرائیور آصف) حادثے کا شکار ہو کر روڈ پر الٹ گیا، جس کی وجہ سے ٹریفک کی آمد ورفت معطل ہوگئی اور مقامی پولیس کو بروقت مطلع کر کے ٹریفک بحال کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔
ترجمان کوسٹ گارڈ کے مطابق اسی دوران کوئٹہ سے کراچی آنے والی ایمبولینس اور دیگر کئی گاڑیاں ٹریفک میں پھنس گئیں جس کی اطلاع ملتے ہی کوسٹ گارڈز نے ریسکیو ٹیموں کے زریعے ایمبولینس کو راستہ بنا کردیا۔ یاد رہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈز ایمبولینس اور ایمرجنسی سروسز پر مامور گاڑیوں کو چیکنگ کے لیے نہیں روکتی۔ سوشل میڈیا پر ایمبولینس کو روکنے والی خبریں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
بیان کے مطابق ایمبولینس ٹریفک حادثے کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہوئی ۔ ایمبولینس میں موجود ڈاکٹر کے ڈیوٹی افسر سے رابطہ کرنے پر پاکستان کوسٹ گارڈز نے بروقت مدد مہیا کرتے ہوئے ایمبولینس کو راستہ فراہم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔
ترجمان کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈز عوامی فلاح بہبود کے کاموں کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتی ہے اور اس نے اپنی چیک پوسٹ پر طبی امداد کے لیے نہ صرف اسپتال قائم کر رکھا ہے بلکہ کوسٹل ایریا میں اکثر فری میڈیکل کیمپس کا بھی انعقاد کرتی ہے۔ علاوہ ازیں ہر قسم کے ٹریفک حادثات میں ریسکیو کا کام بھی انجام دیتی ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران آر سی ڈی اور کوسٹل ہائی ویز پر 50 کے قریب مختلف قسم کے ٹریفک حادثات میں 500 زخمیوں کو طبی امداد مہیا کی گئی۔ پاکستان کوسٹ گارڈز اس امر کا اعادہ کرتی ہے کہ آئندہ بھی اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہ کر ہر قسم کی امداد مہیا کرتی رہے گی۔