زندگی میں سکھ دکھ شئیر کرنے والا جیون ساتھی ہونا ایک زبردست تجربہ ہوتا ہے، لیکن یہ تجربہ اس وقت ناقابل برداشت احساس میں تبدیل ہوجاتا ہے جب آپ کا شریک حیات مسلسل بولنے والا یا باتیں سنانے والا ہو۔ ایسے میں آپ کچھ پل خاموشی کے چاہتے ہیں، لیکن اس خواہش کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں اور بس یہ سوچنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا طریقہ ہوتا کہ مقابل موجود اس نہ تھکنے کی قسم کھائی زبان کو مقفل کیا جاسکتا۔
ویسے تو اس کیلئے براہ راست کہا جاسکتا ہے کہ کچھ دیر کیلئے چپ ہوجاؤ، لیکن یہ تھوڑا سا رسکی ہے۔
کہہ تو آپ ان لفاظ کہ ساتھ بھی سکتے ہیں کہ ’سنو، میں گزشتہ کئی گھنٹوں سے اس گفتگو کا حقیقی طور پر لطف اٹھا رہا/رہی ہوں، لیکن براہ کرم کیا ہم ممکنہ طور پر تھوڑی دیر کے لیے بات کرنا بند کر سکتے ہیں؟ مجھے غلط مت سمجھنا، مجھے تمہاری کمرے میں موجودگی سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن خدا کیلئے چپ ہوجاؤ‘۔
اس طرح کا براہ راست ٹکا سا ردعمل بدتمیزی گردانا جائے گا، لیکن کیا اس کے متبادل بھی ہیں؟
نیند کا بہانہ بنانا یا پڑھنے کے لیے کتاب اٹھا لینا بھی بیکار سا عمل ہے، اسپیکر کو تب بھی بجتا ہی رہے گا۔
لیکن برطانوی اخبار ”دی گارڈیئن“ میں بظاہر ایک قابل عمل نسخہ بیان کیا گیا ہے، جو کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ اگر آپ تنگ آگئے ہیں اور کسی کو چپ کرانا چاہتے ہیں تو اپنا لہجہ تبدیل کرلیجئے، ایسا لہجہ اپنایے جیسے کہ اسکول یا کالجز میں اساتذہ لیکچر کا اختتام کرتے وقت اپناتے ہیں۔ اس سے مخالف کو لگے کہ اب بات کو مختصر کرکے مکمل کرلینا بہتر ہے۔
اس کے علاوہ ایک طریقہ اور بھی ہے اور وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اپنی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر اس طرح رکھیں جیسے چپ کرانے کیلئے رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی دوسرا ہاتھ اپنے دل پر رکھیں اور مسکرائیں۔
اگر یہ دونوں آئیڈیاز کام نہ کریں تو برداشت ہی واحد حل بچتا ہے، چپ چاپ سنتے جائیں اور دل ہی دل میں اپنے ان گناہوں کی معافی مانگتے جائیں جن کی آپ کو سزا مل رہی ہے۔