”میرا پرائمری اسکول، پولیس پوسٹ اور ٹیوب ویل قبرستان میں قائم ہیں جو نہ صرف ہمارے ساتھ مذاق ہے بلکہ قبرستان کی بے حرمتی بھی ہے“، یہ الفاظ پشاور کے علاقے آفریدی آباد سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ لعل زمان کے ہیں۔
پشاور کے پھندو روڈ پر واقع علاقہ آفریدی آباد اور اخون آباد میں پرائمری اسکول، ٹیوب ویل اور پولیس پوسٹ اخون آباد قبرستان میں بنائے گئے ہیں۔
لعل زمان بطور سماجی کارکن کام کرتا ہے۔ لعل زمان نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آفریدی آباد کے پرائمری سکول میں بچوں کی تعداد 280 ہے جبکہ 2 کمروں کا پرائمری سکول 4 مرلے زمین پر بنایا گیا ہے اس لیے نہ صرف جگہ چھوٹی ہے بلکہ سکول انتہائی خستہ حالی کا شکار بھی ہے کیونکہ جائیداد محکمہ اوقاف کی ہے اور محکمہ اوقاف اور محکمہ تعلیم کے تنازع کے باعث اسکول پر نئی تعمیرات ممکن نہیں ہو پارہیں۔
لعل زمان کا کہنا تھا کہ اسکول میں بچوں کی تفریح کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں جس کی وجہ سے بریک کے ٹائم پر بچے قبرستان میں کھلیتے ہیں جو قبروں کی بے حرمتی میں آتا ہے۔
مذکورہ کہانی صرف آفریدی آباد تک محدود نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں لینڈ مافیا اور سرکاری محکموں نے محکمہ اوقاف کی اراضی پر قبضہ جمایا ہوا ہے جس میں زیادہ تر قبرستانوں کی زمین شامل ہے۔
پشاور کے رحمان بابا قبرستان کے گورکن عثمان نے بتایا کہ قبرستان کی اراضی پر قبضہ اور تجاوزات قائم کرنے کے باعث قبروں کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہیں کیونکہ قبرستان کی زمین پر اسکول، گھر اور تھانے قائم کیے گئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے آسانی سے قبر کے لیے جگہ مل جاتی تھی پھر اب خالی جگہ ڈھونڈنے میں گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
محکمہ اوقاف سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق کل 65 ہزار 108 کنال اراضی محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے جو 8138 ایکڑ یا 13 لاکھ 2 ہزار 57 مرلے بنتی ہے تاہم محکمے کی 50 ہزار کنال اراضی پر مقامی آبادی یا لینڈ مافیا اور مختلف سرکاری محکمے قابض ہے۔
دستاویز کے مطابق 1 ہزار 451 کنال اراضی پر سرکاری محکمے قابض ہیں جس میں محکمہ پولیس، جنگلات، تعلیم، صحت، پبلک ہیلتھ ،زلزلہ تعمیر نو اور بحالی اتھارٹی (ای آر آر اے) اور بلدیات شامل ہیں۔
دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 134 کنال اراضی پر محکمہ بلدیات نے غیرقانونی قبضہ جمایا ہوا ہے۔ ای آر آر اے 634 کنال، محکمہ پبلک ہیلتھ 20 مرلہ، محکمہ جنگلات 5 مرلہ اور محکمہ صحت 40 سے زائد کنال اراضی پر قابض ہے۔
محکمہ اوقاف کے دستاویز کے مطابق سب سے زیادہ اراضی پر محکمہ تعلیم قابض ہے جو 640 سے زائد کنال اراضی بنتی ہے۔دستاویز کے مطابق مقامی لوگوں نے مقبوضہ اراضی پر دکانیں اور مکانات جبکہ سرکاری محکموں نے اراضی پر دفاتر، پولیس اسٹیشنز اور سینٹرز قائم کیے ہیں جبکہ 734 کنال اراضی کے تنازعات پر مختلف عدالتوں میں 140 سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کا کل رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 741 مربع کلومیٹر ہے جس میں 65 ہزار 108 کنال اراضی محکمہ اوقاف کا ہے۔
سینئر قانون دان اور ماہر اوقاف امور ناصر محمود خان نے بتایا کہ اوقاف کی جائیداد پر قبضہ ابھی نہیں ہوا بلکہ وقف پراپرٹیز آرڈیننس 1979 سے قبل ہی اراضی قابضین کے استعمال میں رہی۔
ناصر محمود نے پشاور کے علاقہ چمکنی میں عمر بابا مزار کے آس پاس اراضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ عمر بابا ایک بزرگ تھے تو 1800ء میں مقامی لوگوں نے کئی مکانات اور زرعی زمین سمیت 36 ہزار کنال اراضی بطور وقف ان کے حوالے کی، جو اب محکمہ اوقاف کی ہے لیکن یہ اراضی اب بھی انہی لوگوں کے زیر استعمال ہے۔
ناصر محمود کا کہنا تھا کہ عمر بابا اراضی سے متعلق سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا کہ اراضی محکمہ اوقاف کے حوالہ کی جائے اور اگر کوئی محکمہ اوقاف کی معاونت سے اب بھی استعمال کرنا چاہیئے تو محکمہ اوقاف کو قانون کے مطابق معاوضہ ادا کرکے لیز پر حاصل کرسکتے ہیں۔
ناصر محمود نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود واگزاری ممکن نہ ہوسکی کیونکہ محکمہ سمیت حکومت کی جانب سے واگزاری میں سنجیدگی کا مظاہرہ نظر نہیں آرہا۔
خیبرپختونخوا وقف پراپرٹیز آرڈیننس 1979 کے سیکشن 1 کے مطابق کسی بھی قسم کی جائیداد جو مستقل طور پر اسلام کا دعویٰ کرنے والے شخص کے ذریعہ کسی ایسے مقصد کے لیے وقف کی جائے جسے اسلام نے مذہبی، متقی یا خیرات کے طور پر تسلیم کیا ہو، وقف جائیداد کہا جائے گا۔آرڈیننس میں مزید لکھا گیا ہے کہ اگر کسی جائیداد کو زمانہ قدیم سے کسی ایسے مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے اسلام نے مذہبی، متقی یا خیرات کے طور پر تسلیم کیا ہے، تو اس کے باوجود کہ اس میں واضح وقف کا کوئی ثبوت نہیں ہے، ایسی جائیداد کو بھی وقف تصور کیا جائے گا۔
خیبرپختونخوا پبلک پراپرٹی (ریموول آف انکروچمنٹ) ایکٹ 1977 کے سیکشن 2 کے مطابق سرکاری یا عوامی املاک پر عارضی یا مستقل غیرمجاز قبضہ تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے۔
ایکٹ کے سیکشن 8 کے مطابق کوئی بھی شخص جس نے تجاوزات قائم کی ہیں، املاک سے بے دخلی کسی بھی وضاحت کی قید کی سزا دی جاسکتی جو 3 سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے جو مذکورہ سرکاری املاک کی قیمت کا 10 فیصد فی دن کے حساب سے ہوگا۔
خیبرپختونخوا کے چیف خطیب مولانا طیب قریشی نے بتایا کہ قانون میں تو ویسے بھی وقف جائیداد پر قبضے کی اجازت نہیں ہے لیکن جس نے بھی قبرستان سمیت کسی بھی وقف جائیداد پر قبضہ جمایا ہوا ہے تو اس کے لیے مقبوضہ اراضی مکمل حرام ہے کیونکہ وقف جائیداد کو مذہبی، نیک یا خیراتی کام کے لیے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اکثر قابضین وقف اراضی پر دکانیں، سنٹرز یا پلازہ بنا کر کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں جبکہ وقف جائیداد پر گھر بناکر رہنے کے لیے بھی استعمال کرنا جائز نہیں اس لیے قانون کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی عوام کو شریعت کا لحاظ رکھ کر خود ہی وقف جائیداد محکمہ اوقاف کو واپس کرنا چاہیئے۔
مولانا طیب قریشی نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ”قبروں پر مت بیٹھو اور نہ ان کی طرف اور نہ ان کے اوپر نماز پڑھو“، کیونکہ انسان کی عزت و احترام ہر حالت میں واجب ہے اور اسی حدیث کی رو سے قبرستان میں تعیمرات کا قیام کسی صورت جائز نہیں۔
محکمہ اوقاف سے معلومات تک رسائی درخواست کے تحت حاصل کردہ دستاویز کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران قابضین سے مجموعی طور پر 10 ہزار 808 کنال اراضی واگزار کرائی گئی، جس میں سب سے زیادہ 6 ہزار 931 کنال اراضی ضلع مردان میں واگزار کرائی گئی۔
بنوں میں 2 ہزار 246 کنال، ڈی آئی خان میں 1 ہزار 461 کنال، چارسدہ میں 200 کنال اور پشاور میں 150 کنال اراضی قبضہ گروپ سے واگزار کرائی گئی۔
خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ محکمہ اوقاف کی دستاویز کے مطابق مردان، چارسدہ، سوات، ڈی آئی خان، بنوں، ایبٹ آباد، ہری پور، بٹگرام اور مانسہرہ میں 12 ہزار کنال اراضی اور 1 ہزار 688 یونٹس(دکانیں) لیز یا کرایہ پر دی گئیں ہیں جس سے 20 کروڑ سے زائد سالانہ آمدن ہے۔
محکمہ اوقاف کے سابق لیگل ایڈوئزر اور سپریم کورٹ کے وکیل ناصر محمود سمجھتے ہیں کہ اگر اوقاف کی تمام اراضی واگزار کرائی گئی اور پھر قانون کے مطابق ہر سال لیز کی رقم یا کرایہ میں 10 فیصد اضافہ بھی یقینی بنایا جائے تو اوقاف کی اربوں روپے سالانہ آمدن ہوسکتی ہے جس سے دیگر سرکاری محکموں کی ضروریات کو بھی پورا کیا جاسکتا ہے کیونکہ اوقاف کے اپنے اخراجات بہت کم ہیں۔
محکمہ اوقاف خیبرپختونخوا کے ایڈمنسٹریٹر حامد علی گگیانی نے آج نیوز کو بتایا کہ قابضین سے اوقاف کی اراضی واگزار کرانے میں سب سے بڑا مسئلہ عوامی رد عمل کا ہے کیونکہ جب بھی کسی علاقہ میں قابضین کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو قابضین سمیت اہل علاقہ احتجاج شروع کردیتے ہیں جبکہ علاقائی سیاسی عمائدین بھی اہل علاقہ کی حمایت کرتے ہیں جس کے باعث کارروائی کو روکنا پڑتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں حالات کشیدہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس کے باعث پولیس بھی موقع پر مناسب ایکشن نہیں لے سکتی۔
حامد علی کا کہنا تھا کہ کئی قابضین کی جانب سے عدالتوں میں مقدمہ بازی کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی وجہ سے بھی مسائل درپیش ہیں کیونکہ عدالتوں سے غیرحاضری، نئے درخواست، حکم امتناعی سمیت مختلف طریقوں سے مقدمات کو تول دی جاتی ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر اوقاف نے کہا کہ مصروفیات کے باعث ضلعی انتظامیہ اور پولیس بھی وقت نہیں دے سکتی جس کی وجہ سے بھی واگزاری تاخیر کا شکار ہے۔
محکمہ اوقاف خیبرپختونخوا کے ایڈمنسٹریٹر حامد علی گگیانی کا مؤقف ہے کہ وقف اراضی قابضین سے واگزار کرانے کے لیے کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں تمام مسائل کو زیر غور لایا جائیگا جس کے بعد قابضین کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ مختلف محکموں نے وقف جائیداد پر صحت مراکز، اسکولز، کالجز، پارکس اور پولیس پوسٹ قائم کئے ہیں ا س لیے متعلقہ محکموں کو نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں۔
حامد علی گگیانی نے بتایا کہ سرکاری محکموں کو وقف اراضی کا کرایہ دینا پڑیگا یا پھر محکموں کو جگہ خالی کرنی پڑے گی۔
ایڈمنسٹریٹر اوقاف نے کہا کہ اوقاف کی اراضی محکمے کو واپس ملنے سے اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے کیونکہ اشرف روڈ، ڈبگری گارڈن سمیت کئی علاقوں میں قیمتی جائیداد پر قبضہ جمایا گیا ہے جس پر نئی تعمیرات ممکن نہیں اور واگزاری کی صورت میں مذکورہ جگہوں پر پلازے بنائے جاسکتے ہیں جس سے آمدن میں اضافہ ہوگا جو نہ صرف محکمہ کی مالی مشکلات میں کمی کا سبب بن سکتا ہے بلکہ صوبائی حکومت کو دیگر محکموں کے لیے بھی مالی معاونت فراہم کی جاسکتی ہے۔