امریکی کارساز کمپنی ٹیسلا نے آٹو پائلٹ ڈرائیورکی وجہ سے ہونے والی ہلاکت کا مقدمہ جیت لیا، جو اس کے لئے ایک بڑی فتح سے کم نہیں ہے۔
گارڈیئن کے مطابق کیس ریاست کیلیفورنیا کی ایک عدالت میں 2019 کے ایک حادثے میں دو مسافروں کی جانب سے دائرکیا گیا تھا، جنہوں نے کمپنی پر الزام عائد کیا تھا کہ گاڑی بیچنے پر آٹو پائلٹ کا فیچر خراب تھا، جس کی ٹیسلا نے دلیل دی کہ حادثے کی وجہ انسانی غلطی تھی۔
منگل کو 12 رکنی جیوری نے اعلان کیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ گاڑی میں مینوفیکچرنگ کی خرابی نہیں تھی۔ عدالتی فیصلے پر ٹیسلا کے نمائندوں اور مدعیان نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
مقدمے میں الزام عائد گیا ہے کہ آٹو پائلٹ سسٹم کی وجہ سے مالک میکاہ لی کی گاڑی کو لاس اینجلس کے مشرق میں حادثہ پیش آیا تھا، جس کے باعث گاڑی میں آگ لگ گئی تھی۔
عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 2019 کے حادثے میں میکاہ لی کی موت ہو گئی اور دو مسافروں شدید زخمی ہوئے تھے، جس میں اس وقت کا ایک 8 سالہ لڑکا بھی شامل تھا۔
مسافروں کی جانب سے ٹیسلا کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے میں کمپنی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ یہ جانتی تھی کہ آٹو پائلٹ فیچر اور دیگر حفاظتی نظام اس وقت خراب تھے، جب اس نے گاڑی فروخت کی تھی۔
ٹیسلا نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میکاہ لی پہلے شراب پی تھی، یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ واضح نہیں تھا کہ حادثے کے وقت آٹو پائلٹ فیچر مصروف تھا یا نہیں۔
ٹیسلا اپنے آٹو پائلٹ سسٹم کی جانچ کر رہی ہے، جسے اس کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک نے اپنی کمپنی کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
ٹیسلا نے اپریل میں لاس اینجلس میں اس سے پہلے کا ٹرائل جیتا تھا کہ وہ ڈرائیوروں کو بتاتی ہے کہ ”آٹو پائلٹ“ محفوظ ہے لیکن اس کے باوجود اس کی ٹیکنالوجی کو انسانی نگرانی کی ضرورت ہے۔
ججوں نے فیصلے کے بعد روئٹرز کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ ٹیسلا نے ڈرائیوروں کو اپنے سسٹم کے بارے میں خبردار کیا تھا اور ڈرائیور کی خلفشار اس کا ذمہ دار تھا۔