چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم پوچھ رہے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ عدالت نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اور الیکشن کمیشن کی رپورٹ بھی مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت جاری ہے، چیف جسٹس کی سربراہی تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔
عدالتی حکم پر فیض آباد دھرنا کیس میں اٹارنی جنرل نے عملدرآمد رپورٹ جمع کروا دی، جب کہ درخواست گزارشیخ رشید نےنظرثانی درخواست واپس لینےکیلئےرجوع کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج کی سماعت کے حکم نامے میں لکھوایا وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو کی درخواستیں واپس لینے پر خارج کی جاتی ہیں۔
حکمنامے کے مطبق حکومتی 3 رکنی فیکٹ فاٸنڈنگ کمیٹی مؤثر نہیں ہے، عدالت نے پوچھا کیا حکومتی 3 رکنی کمیٹی کسی کو طلب کر سکتی ہے، تو ہمیں اس کا تسلی بخش جواب نہیں ملا، اور اٹارنی جنرل نے کہا وہ کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دیں گے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کو کمیشن کے قیام کیلئے وقت فراہم کرتے ہیں، حکومت اگررضامند ہوئی تو کمیشن بنا کر نوٹی فکشن پیش کرے، لیکن کمیشن کے ٹی او آرز بالکل واضح ہونے چاہیے۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا جس میں انہوں نے ایک انفرادی شخص اور ان کے نامعلوم ماتحت اہلکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے، اور جس انفرادی شخص پر الزام لگایا وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہے۔
حکمنامے کے مطابق اگر وفاقی حکومت کمیشن تشکیل دیتا ہے تو ابصار عالم نے کہا کہ وہ پیش ہوکر بیان دیں گے، اور جس شخص پر الزام لگایا اگر وہ جرح کرے تو بھی کارروائی کا حصہ بنوں گا۔
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے متضاد بیانات دیے، چیئرمین پیمرا کی توجہ پیمرا قانون کے سیکشن پانچ کی جانب دلائی گئی، آپ کی مہر پر نام کے ساتھ بیگ موجود نہیں۔
چیف جسٹس نے حکمنامہ سے بھی بیگ کا لفظ ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکمنامے میں لکھوایا کہ آپ کی مہر کے ساتھ حکومت پاکستان بھی لکھا آپ حکومت کیسے ہیں، سلیم بیگ آپ کچھ پڑھے لکھے تو ہیں ناں، آپ کچھ تو بتائیں آپ کو اپنا نام بھی پتہ بھی نہیں، آپ پیمرا کا قانون تو پڑھ لیں ہم آپ کو کتاب بھیج دیں گے۔
حکمنامے میں تحریر کیا گیا کہ سماعت کے دوران چیئرمین پیمرا سے پوچھا گیا انہوں نے نظرثانی درخواست کیوں دائر کی، سلیم صاحب آپ خود بتا دیں اس کے جواب میں کیا لکھیں۔
کیس کی سماعت شروع ہوتئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وزارت دفاع کی نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابصار عالم کہاں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابصار عالم راستے میں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابصارعالم نے وزارت دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزامات عائد کیے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ابصارعالم کے الزامات درست ثابت ہوئے تو معاملہ وزارت دفاع کے دائرہ کارمیں آئے گا، تو کیا اب بھی وزارت دفاع اپنی درخواست واپس لینا چاہتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت فیصلے پرعملدرآمد کرنا چاہتی ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا قیام اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب تشکیل دی گئی ہے۔ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 19 اکتوبرکو تشکیل دی گئی۔ چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کودے گی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی وزارت دفاع کو رپورٹ جمع کرائے گی، پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہوچکا، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کردیا گیا ہے، اربوں کا نقصان ہوگیا مگر آپ کو کوٸی فکر نہیں، عدالت کا کام آپ کی ذمہ داری ادا کرنا نہیں ہے، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے تھا، کمیٹی کے ٹی او آرز میں کوٸی ٹاسک نہیں دیا گیا، کیا حکومت ہوا میں کام کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پوچھ رہے ہیں اس کا ماسٹرماٸنڈ کون ہے؟ اس دھرنے کو کس نے منیج کیا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ریاستی امور آٸین کے مطابق چلائے جارہے ہیں؟ فیکٹ فاٸندنگ کمیٹی کی منظوری وفاقی کابینہ سے لی گٸی؟ کمیٹی کس قانون کے تحت قاٸم کی گٸی؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں، کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اورچیز کی؟ واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویزصرف کاغذ کا ٹکڑا ہے، کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس طرح حکومت معاملات چلانا چاہ رہی ایسے نہیں ہوگا، عدالت یہ قرار دے گی کہ حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں کچھ نہیں کیا، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کا ماسٹرمائنڈ کون تھا، چھ فروری 2019 سے آج تک فیصلے پرعملدرآمد نہیں ہوا، اس طرح تو یہاں ہر کوئی کہے گا کہ میں جو بھی کروں مجھے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔
اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پڑھا۔ تو چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کوپیش کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی ٹی اوآرز آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کردی اور فیض آباد دھرنے کے معاملے پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو 2 دن میں آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
عدالت نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابصارعالم کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے، بڑا تعجب ہوا کہ پیمرا کے وکیل نے رپورٹ نہیں پڑھی، عدالت کا یہ کام نہیں کہ کسی کو رپورٹ گھر دے کر آئے، عدالت کی کارروائی کوسنجیدہ لیا جائے۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے یہ رپورٹ پڑھی ہے۔ جس پر چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ جی یہ رپورٹ پڑھی ہے۔ چیف جسٹس نے چیٸرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا ہے۔ جس پر چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ آپ چیئرمین پیمرا کب بنے۔ سلیم بیگ نے جواب دیا کہ جون 2018 میں چیئرمین پیمرا تعینات ہوا، ابصارعالم نے جو کہا وہ انہیں کے ساتھ ہوا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ”فلاں کومارو ، فلاں کو آگ لگا دو“ یہ فریڈم آف سپیچ نہیں،
آپ کس چیز کے چیئرمین ہیں، ہر ادارہ مذاق بن کے رہ گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ہربندہ کرسی سے اترنے کے بعد کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، سب بڑا مسئلہ ہی یہ ہے، بتائیں نشریات بند کرنے والے کیبل آپریٹرز کیخلاف کیا کارروائی کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی فیصلے پرعمل نہیں کرنا چاہتے، آپ کے یہ کیسے وکیل ہیں جو اپنے موکل کو درست گائیڈ نہیں کرتے۔
چیف جسٹس کی برہمی کرنے پر پیمرا کے وکیل ایس اے رحمان نے وکالت نامہ واپس لے لیا، اور روسٹرم سے ہٹ گئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پیمرا سچ بولنے سے قاصر ہیں، پیمرا قانون کے مطابق بورڈ کے فیصلے تحریری ہوں گے زبانی نہیں، کیا چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیوں نہ نظرثانی درخواست بھاری جرمانے کے ساتھ خارج کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پیمرا کوعلم ہی نہیں نظرثانی کیسے دائر ہوئی تھی،سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ نےغلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پرعمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے سوال کیا کہ چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت کتنی ہے۔ جس پر سلیم بیگ نے بتایا کہ 4 سال کی مدت ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ پھر آپ کیسے اب تک بیٹھے ہیں۔ جس پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ دوبارہ تعیناتی کی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے۔ جس پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ اس وقت عمر 63 سال ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس وقت کا کیا مطلب ہے، آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا۔
کیس کی سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کیا گیا اور وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ جاری شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی کسی کے حکم پر دائر کی تھی، الیکشن کمیشن نے قانون کو محض دکھاوا قرار دیا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن قمر افضل نے مؤقف پیش کیا کہ ان ریمارکس سے لاتعلقی کرنا چاہتے ہیں، عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کر دیا ہے، سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی بھی دائر کی اور فیصلے پرعمل بھی کررہے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ صرف قانون کو کاسمیٹک یعنی دکھاوا قرار دینے کا لفظ حذف کرانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اپنے جواب میں خادم رضوی کو حافظ کیوں لکھا ہے، ان کو آٸینی ادارہ اتنی عزت کیوں دے رہا ہے، عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے کیا کارروئی کی۔
وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن قانون کے مطابق کوئی کمیٹی بنا سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال پوچھا کہ الیکشن کمیشن اپنا موقف لے چکا تھا اس پر کیا انکوائری کرنی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے ٹی ایل پی رجسٹر کرانے والے شخص کو بلایا، ٹی ایل پی رجسٹریشن کرانے والا شخص تو دوبئی میں رہتا ہے۔ وکیل قمر افضل نے جواب دیا کہ ٹی ایل پی کو بلایا تھا رجسٹر کرانے والے کو نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہکیا الیکشن کمیشن اس طرح کام کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ راتوں رات سیاسی جماعتیں کیسے رجسٹر ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں اوپر سے حکم آتا ہے کچھ کہتے ہیں پہیے لگ جاتے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بیرون ملک رہنے والا سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتا ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیرون ملک رہنے والوں کے پارٹی رجسٹرکرانے والوں پرپابندی نہیں، سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے 2 ہزار شناختی کارڈ لازمی ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ٹی ایل پی والوں کے 2 ہزار شناختی کارڈ کہاں ہیں، ان کی پارٹی رجسٹریشن کا ریکارڈ کہاں ہے، الیکشن ایکٹ 2017 پرعملدرآمد کا ریکارڈ کہاں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹی ایل پی کی فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی ہیں، معمولی رقم باہر سے ملی تھی جسے فارن فنڈنگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے فارن فنڈنگ توہے لیکن بہت معمولی سی، میرے لیے تو 15 لاکھ روپے بڑی رقم ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر 10 روپے بھی فارن فنڈنگ آئیں تو قانون کیا کہتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پہلے کہا قانون کاسمیٹک ہے اب کہتے ہیں فنڈنگ پینٹس ہیں۔
چیف جسٹس نےالیکشن کمیشن کی عملدرآمدرپورٹ مسترد کردی اور ریمارکس دیئے کہ یہ فائل آپ واپس لے جائیں اور بتائیں آپ نے قانون پرعمل کیا، ہمارے فیصلے کو بھول جائیں اپنا قانون دیکھ کر بتائیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق وکیل تیمور ملک نے عدالتی حکم پر نظرثانی کی استدعا کی، تیمور ملک کی نظرثانی درخواست مقررہ مدت میں دائر نہیں ہوئی تھی، تیمور ملک ایڈووکیٹ کی نظرثانی درخواست خارج کر دی گئی۔
عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر الیکشن کمیشن کو آنے کی ضرورت نہیں؟ الیکشن کمیشن کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔