خوف وہ بنیادی احساس ہے جو انسانی نفسیات کی گہرائی میں پیوست ہے اور صدیوں سے ہمیں چوکنا اور خوفزدہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ احساس دل کی تیز دھڑکن سے پسینے والی ہتھیلیوں تک جسمانی اور ذہنی ردعمل کو متحرک کرتا ہے۔
لیکن جب آپ خوفزدہ ہوتے ہیں تو آپ کے دماغ میں ہوتا کیا ہے، کچھ لوگ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سے کیوں لطف اندوز ہوتے ہیں اور کچھ خوف کے عالم میں ہنسنے کیوں لگتے ہیں؟
یہ ایسی کیفیات ہیں جن کا جواب انتہائی دلچسپ لیکن سائنسی ہے۔
امیگڈیلا آپ کے دماغ کی گہرائی میں بادام کی شکل کا جوڑوں کا ایک جھرمٹ ہے اور یہی خوف کی کارروائی کا مرکز ہے۔ جب آپ کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو آپ کے دماغ کے حسی اعضاء اس معلومات کو امیگڈیلا تک پہنچاتے ہیں۔
اس کے بعد یہ رد عمل کا ایک تیز سلسلہ شروع کرتا ہے، ایڈرینالین جیسے تناؤ کے ہارمون جاری کرتا ہے، جو آپ کے ”لڑو یا بھاگو“ کے ردعمل کو شروع کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور آپ کے عضلات تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، جو آپ کو خطرے کا مقابلہ کرنے یا جلدی سے وہاں سے بھاگنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔
اگرچہ امیگڈیلا خوف کے ردعمل میں بقا کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کچھ افراد خوفزدہ ہوکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہارر فلمیں دیکھنا یا خوفناک تجربات تلاش کرنا ان کے لیے ایڈرینلن رش ہو سکتا ہے۔
یہ رجحان، جسے ”بے نائین ماسوچزم“ کہا جاتا ہے، دماغ کے انعامی نظام سے منسلک ہو سکتا ہے۔ خوف کے بعد راحت کیلئے اینڈورفنز خارج ہوتے ہیں جو خوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
جو لوگ خوفزدہ ہونے پر ہنستے ہیں، ان کا دماغ ایک مختلف لیکن دلچسپ انداز میں کام کرتا ہے۔
جب آپ خوف یا اضطراب کا تجربہ کرتے ہیں تو آپ کا دماغ صورت حال کو خطرناک نہیں سمجھتا، اس کے نتیجے میں ایک غیر متوقع ردعمل ہنسی کی صورت میں ہوتا ہے۔
یہ ایک مقابلہ کرنے کا طریقہ کار ہے جو تناؤ اور اضطراب کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے، اور اسے ”اعصابی ہنسی“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دماغ بنیادی طور پر اس صورت حال میں مزاح تلاش کرکے خوف پیدا کرنے والی صورت حال کو کم کی کوشش کرتا ہے۔