حکومت پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین سمیت تمام تارکین وطن کو ملک سے چلے جانے کی دی جانے والی تاریخ کا آج آخری دن ہے۔ پاکستان میں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ افغانوں مہاجرین کو فوری وطن جانے کیلئے کہنا انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے۔
چالیس سال سے لاکھوں کی تعداد میں افغان پاکستان میں رہ رہے ہیں، اور اس دوران ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، تاہم اب ان کو بالآخر وطن جانا چاہیئے یا نہیں، اس مسئلے پر ایک غیرجانبدارانہ نظر ڈالتے ہیں۔
افغانستان میں اس وقت وہاں کے عوام کی اپنی مرضی کی حکومت ہے، تاہم انتخابات ابھی نہیں ہوئے لیکن عبوری حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔ اس وقت افغانستان میں کوئی غیرملکی فوج موجود نہیں ہے۔
افغانستان میں کسی بھی گروپ کے مابین کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔ فقط ایک گروپ تحریک طالبان پاکستان وہاں ہے جو افغان حکومت نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بظاہر افغان حکومت نے ان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں نہ کریں، لیکن اندرون خانہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے لیے ایک پریشر گروپ کے طور پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مطالبات منوا سکیں۔
افغانستان کی آبادی چار کروڑ 14 لاکھ سے زائد ہے، جب کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 29 لاکھ سے زائد ہے۔ اب دونوں ممالک کی ترقی کا موازانہ آبادی کی بنیاد پر ہی کریں گے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کا جی ڈی پی رینک 124 اور 102 ہے۔ جب کہ پاکستان کا جی ڈی پی رینک 46 اور 24 ہے۔
افغانستان کا جی ڈی پی پر کیپٹا 363 ڈالرز سے 1674 ڈالرز تک ہے، جب کہ پاکستان کا جی ڈی پی پرکیپٹا ایک عشاریہ 6 ہے۔
شعبہ جات کے حوالے سے جی ڈی پی افغانستان میں زراعت 23 فیصد، صنعت 21 فیصد، خدمات 55 فیصد سے زائد ہے، جب کہ شعبہ جات کے حوالے سے جی ڈی پی پاکستان میں زراعت 22 فیصد، صنعت 19 فیصد اور خدمات 58 فیصد ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق افغانستان میں مہنگائی منفی ایک فیصد ہے، جب کہ پاکستان میں مہنگائی 29 فیصد سے زائد ہے۔ افغانستان میں بیروزگاری 13 فیصد سے زائد اور پاکستان میں 17 فیصد سے زائد ہے۔
افغانستان کی برآمدات 2 ارب ڈالرز سے زائد ہیں (اس میں وہ برآمدات شامل نہیں جو اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر ہوتی ہے) جب کہ پاکستان کی برآمدات 35 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ پاکستان میں آبادی اور صنعتوں کی تعداد بہت زیاد ہے۔
افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 9 اعشاریہ 6 ارب ڈالرز ہیں (لیکن وہ امریکہ کی جانب سے منجمد کئے ہوئے ہیں۔) جب کہ پاکستان کے فارن ریزو 7 اعشاریہ 9 ارب ڈالرز ہیں۔
پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزرانے والی آبادی 35 عشاریہ 7 فیصد ہے، اور افغانستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی 49 عشاریہ 4 فیصد ہے۔ تاہم اس حوالے سے دونوں ممالک کی آبادی کو ذہن میں ضرور رکھنا چاہیئے۔
ڈالر کی قیمت افغانستان میں ایک ڈالر کی قیمت 73.44 افغانی ہیں، جبکہ پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت 281.07 روپے ہے۔
ان تمام اعداد و شمار کو غور سے پڑھیں، تجزیہ کریں کہ جس ملک میں مہنگائی منفی ایک عشاریہ ہو، وہاں جانا چاہیئے یا جس ملک میں مہنگائی 29 فیصد سے زائد ہو وہاں رہنا چاہیئے۔
اب افغانستان میں جنگ کی صورتحال ہے نہ تباہی ہے، اور یہ روزانہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جب کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہت مشکل سے گزر رہی ہے۔
پاکستان نے چالیس سال سے زائد عرصہ افغانوں سمیت غیر ملکیوں کو اپنے پاس رکھا، اب جب ان کے گھر کے حالات سازگار ہو رہے ہیں، خوشحالی آ رہی ہے تو ان کو خود ہی اپنے وطن جانا چاہیے۔
برطانیہ جیسے ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت والے ملک میں بھی اس قسم کے تارکین وطن 7 فیصد سے زائد نہیں، جب کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک، جس کی اپنی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، اپنے ملک کے لوگوں کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے، اس میں تارکین وطن 30 فیصد سے زائد ہیں۔
جب تک انسانی ہمدردی کا مسئلہ تھا، پاکستان نے افغانوں بنگالیوں، برمیوں کی خدمت کی۔ ان ان کے ممالک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں تو اپنے ملک جانے کیلئے کہنا کونسی انسان دشمنی ہوگئی؟
اوپر دیئے گئے اعداد وشمار کی روشنی میں یہ بات واضح طور پر سامنے آرہی ہے کہ اب افغانوں سمیت تمام غیرملکی، غیرقانونی ہوں یا قانونی، جن نے جعلی شناختی کارڈز بنائے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنے اپنے وطن واپس چلے جانا چاہیئے۔