خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی، اور آئندہ سماعت منگل تک ملتوی کردی، اور گواہان کے بیانات قلمبند نہ ہوسکے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سماعت کی۔
چئیرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو کمرہ عدالت پہنچایا گیا۔ جب کہ سرکاری وکلا عمر اشتیاق اور محمد شرجیل بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے دوران ایف آئی اے ٹیم نے مزید 10 گواہان پیش کیے، گواہان میں عمران سجاد ڈپٹی ڈائریکٹر، عقیل حیدر ڈپٹی ڈائریکٹر، شمعون قیصر ڈپٹی ڈائریکٹر، ایم افضل ایس او، نادر خان ڈپٹی ڈائریکٹر، وزارت خارجہ سے اقرا اشرف، فرخ عباس اور حسیب بن عزیز، آئی او شبیر تفتیشتی افیسر خوشنود شامل ہیں۔
کیس میں سرکاری گواہان کے بیانات کمرہ عدالت میں ریکارڈ کرنے کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا، تاہم کسی کا بیان قلم بند نہ ہو سکا۔ اور بعد ازاں عدالت نے سائفرکیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ سماعت پر ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ نہ ہونے کے باعث بیانات ریکارڈ نہیں ہوئے تھے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، اور شاہ محمود نے اس جرم میں ان کی معاونت کی۔
مزید پڑھیں: مراد سعید، عمر ایوب، شبلی فراز سمیت پی ٹی آئی کے 11 رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری
چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفر کیس کی سماعت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں کی۔
پراسیکیوٹر شاہ خاور اورایف آئی اے حکام اور جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عثمان ریاض ،عمیرنیازی اور خالد یوسف جبکہ شاہ محمود قریشی کے وکلاء تیمورملک اور راجہ قمر عدالت میں پیش ہوئے۔
ملزمان کے وکلا نے نئی درخواست دائر کی جس میں مؤقف پیش کیا کہ اس کیس میں فرد جرم عائد نہیں ہوسکتی۔ جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آج کی تاریخ فرد جرم عائد کرنے کیلئے رکھی تھی۔
عدالت نے سائفرکیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اورشاہ محمود قریشی پرفرد جرم عائد کردی۔ تاہم دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
عدالت نے کیس کے گواہ 27 اکتوبر کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: ’عمران خان نے فوج کے خلاف ٹارگٹڈ پلان بنایا‘، اعظم خان کے بعد اسد مجید بھی گواہ بن گئے
عدالت نے شاہ محمود اور عمران خان کے خلاف چارج شیٹ جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 7 مارچ 2022 کو واشنگٹن سے موصول سائفر غیر متعلقہ افراد کو سونپا گیا، اور دونوں ملزمان خفیہ دستاویزات کی معلومات سے متعلق رابطوں میں ملوث پائے گئے، اور ملزمان کے خلاف رواں سال 15 اگست کو سائفر کیس کا مقدمہ درج ہوا۔
فرد جرم کے مطابق سابق وزیر اعظم نے اعظم خان کو سائفر کے منٹس اپنے انداز سے تیار کرنے کی ہدایت کی، اور اس جرم میں شاہ محمود قریشی نے چئیرمین پی ٹی آئی کی معاونت کی، اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 اور 9 کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔
فرد جرم کے مطابق بیرون ملک پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو کمپر ومائز کیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے اس عمل سے ریاست پاکستان کی سیفٹی متاثر ہوئی، عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
25 اکتوبر کو چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس میں خود پر عائد فرد جرم کی کارروائی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردی اور وکیل سلمان صفدر اور خالد یوسف کے ذریعے درخواست دائر کی، جس میں مدعی مقدمہ یوسف نسیم کھوکھر اور ریاست کو فریق بنایا گیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواست میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ قانون کے مطابق مقدمہ کی نقول تقسیم کرنے کے 7 دن بعد چارج فریم کیا جا سکتا ہے، لیکن ٹرائل کورٹ نے 7 دن کے قانونی تقاضے کو بھی مدنظر نہیں رکھا۔
مزید پڑھیں: سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی نے فرد جرم کی کارروائی چیلنج کردی
درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں فرد جرم عائد کی اور ٹرائل بھی جلد بازی میں مکمل کرنا چاہتی ہے، اعلی عدلیہ کی جانب سے ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر سماعت یا جلد مکمل کرنے کی کوئی ہدایت نہیں ہے، جلد بازی میں ٹرائل آگے بڑھانے سے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوں گے۔
مزید پڑھیں: سائفرکیس: ’کسی شخص کے لیے رولز کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے‘
درخواست میں مؤقف پیش کرتے ہوئے استدعا کی گئی کہ مرکزی ثبوت سائفر ٹیلی گراف کی عدم موجودگی میں ٹرائل آگے نہیں بڑھایا جا سکتا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا 23 اکتوبر کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے۔